کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے بھتا نہ دینے پربلدیہ فیکٹری میں آگ لگا کر ڈھائی سو سے زائد افراد کو قتل کرنے کے اس مقدمے میں رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں 4 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا جن میں ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی، ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبدالستار شامل ہیں۔
عدالت نے 4 ملزمان فضل احمد، علی محمد، ارشد محمود اور فیکٹری منیجر شاہ رخ کو بھی سہولت کاری کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 2 ستمبر کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ترجمان ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ رؤف صدیقی کی بریت سے ثابت ہوتا ہے کہ کیس سے ایم کیو ایم کا تعلق نہیں تھا۔
ایم کیو ایم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سانحہ بلدیہ کے لواحقین سے ہمدردی ہے، متاثرین کو آٹھ برس تک فیصلے کا انتظار کرنا پڑا۔
ترجمان ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ امید ہے اعلیٰ عدالتیں بلدیہ فیکٹری کیس کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گی، کسی سماج دشمن اور قانون شکن عناصر کی سرپرستی کی پالیسی نہ پہلے تھی نہ ہو گی۔
بلدیہ فیکٹری کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی کا میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ سانحہ بلدیہ کے مظلوموں کو انصاف ملے، اور نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔
ساجد سدوزئی نے کہا کہ خوشی ہے کیس کا فیصلہ انصاف پر مبنی تھا، ہماری کوشش تھی کہ ہر پہلو پر بہتر تحقیقات کریں، تمام کارروائی میں پراسیکیوشن اور مختلف ادارے شامل تھے، کیس میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سپورٹ حاصل رہی۔
ایس ایس پی ساجد سدوزئی کا کہنا تھا کہ فیکٹری مالکان کو ملزم نامزد نہ کرنا جے آئی ٹی کا فیصلہ تھا، پولیس انفرادی طور پر فیصلہ نہیں کر سکتی تھی، جے آئی ٹی میں فیکٹری مالکان کو متاثرہ فریق قرار دیا گیا۔
جے آئی ٹی میں شامل افراد کو کیس کی چارج شیٹ میں شامل نہ کرنے سے متعلق سوال پر ایس ایس پی ساجد سدوزئی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی اور لیگل قانونی طریقے کار میں فرق ہوتا ہے، کوشش کی کہ اصل ملزمان کو نامزد کرکے سزا دلوائی جائے۔
خیال رہے کہ بلدیہ کی ٹیکسٹائل فیکٹری میں ستمبر 2012 میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 250 سے زائد افراد زندہ جل گئے تھے۔
مذکورہ فیکٹری علی انٹرپرائز کے مالکان نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں ایم کیو ایم کی جانب سے 25 کروڑ روپے بھتاطلب کرنے کی تصدیق کی تھی۔
اس کیس کے 768 گواہوں میں سے 400 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیا گیا جب کہ 368 گواہوں کے نام واپس لے لیے گئے۔
دسمبر 2016 میں بلدیہ فیکٹری کیس میں ملوث ایک ملزم رحمان عرف بھولا کو انٹرپول کی مدد سے بینکاک سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا تھا۔
عبدالرحمان بھولا نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے حماد صدیقی کے کہنے پر ہی بلدیہ فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔
بعدازاں 27 اکتوبر 2017 کو سانحہ بلدیہ فیکٹری کا مرکزی ملزم حماد صدیقی دبئی سے گرفتار کیا گیا تھا۔