تحریر: رشید احمد نعیم معروف متنازعہ ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق قندیل بلوچ قتل سے قبل اپنے کرائے کے گھر میں موجود تھیں جہاں ان کے حقیقی بھائی نے انہیں قتل کر دیا۔ قتل کے وقت قندیل بلوچ بھائی کو اس اقدام سے باز رکھنے کیلئے شدید مزاحمت بھی کرتی رہیں لیکن ان کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ ماڈل قندیل بلوچ کو مبینہ طور پر بھائی نے گلا دبا کر قتل کر دیا ہے ۔واقعے کے بعد ملزم موقع سے فرار ہو گیا جس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ان کے قتل پر ہر طرف سے مختلف اراء پائی جا رہی ہیں کچھ افراد کا کہنا ہے کہ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ کافی دنوں سے لگایا جا رہا تھا، خود کو شہرت کی بلندی میں پہنچانے میڈیا میں خبر بننے کیلئے جائز و ناجائز، حرام حلال، انسانی غیر انسانی، اخلاقی و غیر اخلاقی، من گھڑت اور مفروضی کہانیوں کے بل بوتے پر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرنے والی قندیل بلوچ کا صرف گلہ نہیں بلکہ اس کی آواز کو بھی ہمیشہ کیلئے دبا دیا گیا ہے۔
قندیل کا قتل ایک خاتون ایک ماڈل کا قتل نہیں یہ کردار کا قتل ہے قندیل اپنی ایک خاص ذاتی سوچ کی مالک تھی ۔ اس کا فلسفہ زندگی ہے اپنا تھا۔ شہرت اور دولت کا نشہ بہت کم لوگ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ورنہ یہ ہماری فانی زندگی کا واحد وہ دھوکہ ہے جو چند لمحوں کیلئے ہماری زندگی میں آکر ہمارے اندر کے انسان کے رویئے کو باہر کے انسانوں کے سامنے برہنہ کر دیتا ہے پھر وہی ہوتا ہے جو قندیل بلوچ کے ساتھ ہوا، قندیل کا قتل معاشرے میں ان انسانوں کیلئے پیغام ہے جو دولت، شہرت اور طاقت کے نشے میں چور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب عارضی چیزیں ہیں۔
Qandeel Baloch Brother
مگر اس ک ساتھ ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اس کی اپنی زندگی تھی اور اس کو اپنے ڈھنگ سے جینے کا پورا پورا حق تھا۔ وہ جیسی بھی تھی۔ وہ غلط تھی ،بدکردار تھی تو یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ تھا ۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زندگی کے فیصلے کرے مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ وہ صرف اور صرف شہرت حاصل کرنے کی خاطر جس ڈگر پر چل پڑی تھی وہ کسی بھی لحاظ سے قابل ِ تحسین نہیں تھی۔ ان حالات میں بھائی بے چارے کیا کرتے ؟؟ ان کو منہ چھپانے کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی جبکہ قندیل سمجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی دن بدن روشن خیالی کی جس منزل کی طرف وہ بڑھ رہی تھی اس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور قندیل ہر حد عبور کر لینا چاہتی تھی اس لیے بھائی کو مجبوراً یہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے۔مگر مجھ کو حیرت ہو رہی ہے ان دانشوروں پر جو کل سے قندیل کی موت پہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔
معلوم نہیں انہیں قندیل کی موت کا افسوس ہے یا اس بات پہ رنجیدہ ہیں کہ ان کی آنکھوں کو جو تسکین قندیل کی نیم برہنہ تصاویر دیکھ کر ملتی تھی وہ چھن گئی ہے۔ان کو قندیل کی موت یا د آ رہی ہے ، اس کے بھائی کی سفاکی دکھائی دے رہی ہے مگر قندیل کی بے غیرتی ، بے حیائی اور بے شرمی والی سرگرمیاں اور کہانیاں یا دکیوں نہیں آرہی ہیں؟؟؟انسانیت کے ان ٹھیکے داروں کو اس کا غیر مہذبانہ انداز ِ زندگی کیوں نظر نہیں آ رہا ہے ؟؟؟ قندیل کے بھائیوں کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی ؟؟؟ ان کے احساسات و جذبات کیا ہوں گے ؟؟؟ ان کو وہ کیوں محسوس نہیں ہو رہے ہیں؟؟؟ سچ ہے کہ اسلام قتل کی اجازت نہیں دیتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام بے راہ روی کی بھی اجازت نہیں دیتا ۔ گزارش ہے کہ قندیل کے قتل کی مذمت ضرور کریں مگر الفاظ کا چنائو کرتے وقت اس کے بھائی اور باپ اندرونی جذبات و احساسات کا خیال بھی ضرور رکھیںاللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔
Rashid Ahmed Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم رشید احمد نعیم سینئر ممبر کالمسٹ کانسل آف پاکستان صدر الیکٹرونک میڈیا حبیب آباد پتوکی 0301403622