تحریر: رشید احمد نعیم جس دن سے متنازعہ ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ قتل ہوئی ہیں ۔ فیس بکی دانشو ارپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے ۔ اس قتل سے بربریت کی داستان رقم کی گئی ہے اور ملت ِ اسلامیہ اس عظیم نقصان سے دو چار ہوئی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں اور اس قتل سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا۔اس قتل کی آڑ میں معاشرے پر خوب لعن طعن کی جا رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ خود ساختہ دانشور اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اس قتل کے تانے بانے عورت کی آزادی سے ملائے جا رہے ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی عورت کو کسی قسم کی آزادی نہیںہے بلکہ ان پر جبر کیا جاتا ہے۔
سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہا یہ جا رہا ہے کی زندگی کے قول و فعل کا ہرانسان خود ذمہ دار ہے اورکسی کو بھی سزا و جزا کا حق نہیں ہے۔بالکل ٹھیک ۔ سزا و جزا کا اختیار کسی فرد ِ واحد کو نہیں ہے۔ آپ کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ سزا وجزا کا حق اور اختیار صرف رب کائنات کے پاس ہے یا حکومت ِ وقت غلط عادات و اطوار یا غیر اخلاقی حرکات پر نوٹس لے سکتی ہے مگر حکمرانوں کو تو اپنے اللوں تللوں سے ہی فرصت نہیں ہے توپھر آپ سے سوال ہے کہ آپ بتائیں قندیل بلوچ نے سستی شہرت حاصل کرنے ک لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کو دیکھنے کے بعد اس کے بھائی کیا کرتے ؟؟؟ آپ آزادی ِ ا ظہار کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں مگر کیا آپ آزادی اظہار کی تعریف بتانا پسند کریں گے ؟؟؟
Qandeel Baloch
کیا آزادی اظہار کی آڑ میںکوئی جو چاہے کرتی پھرے؟؟؟باریک لباس میں فوٹو بنوائے یا مختصر لباس زیب ِ تن کرکے نیم برہنہ تصاویر بنوا کر بڑے فخر سے نیٹ یا فیس بک پرUPLOAD کر کے بے حیائی کے فروغ کا باعث بنے ؟؟ بے شرمی و بے غیرتی کی حدیں عبور کرتی پھرے ؟؟؟ جسم کی نمائش کرتی پھرے مگر؟؟؟ اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو ؟؟؟اگر آپ کے نزدیک اس کا نام آزادی ہے تو مہربانی فرمائیں اس کو اپنے تک محدود رکھیں کیونکہ اسلام یا مشرقی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیںکہ غیرت کو بنیاد بنا کرقتل ِ عام کا بازار گرم کر دیا جائے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے ۔اگر قندیل اپنے کیے کی خود ذمہ دار تھی تو اس کا بھائی بھی اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے وہ قانون کی حراست میں ہے اور قا نون بہتر فیصلہ کرے گا
راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مجھ کو حیرت ہو رہی ہے ان دانشوروں پر جو قندیل کی موت پہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔معلوم نہیں انہیں قندیل کی موت کا افسوس ہے یا اس بات پہ رنجیدہ ہیں کہ ان کی آنکھوں کو جو تسکین قندیل کی نیم برہنہ تصاویر دیکھ کر ملتی تھی وہ چھن گئی ہے۔ان کو قندیل کی موت یا د آ رہی ہے ، اس کے بھائی کی سفاکی دکھائی دے رہی ہے مگر قندیل کی بے غیرتی ، بے حیائی اور بے شرمی والی سرگرمیاں اور کہانیاں یا دکیوں نہیں آرہی ہیں؟؟؟انسانیت کے ان ٹھیکے داروں کو اس کا غیر مہذبانہ انداز ِ زندگی کیوں نظر نہیں آ رہا ہے ؟؟؟ قندیل کے بھائیوں کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟؟؟ اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔مشرقی اور پاکستانی معاشرے کو ”کوڑھ زدہ ” معاشرہ قرار دینے والوں سے میں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اگر آپ کی بہو ، بیٹی یا بہن قندیل بلوچ کے اختیار کردہ راستے کو اپنا لے تو کیا آپ اس کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیںگے؟؟؟ کیا آپ اس کو اپنے گلے لگا کر خراج ِ تحسین پیش کریں گے ؟؟؟بالکل نہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ سے تو میرے یہ الفاظ برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔
Murder
آپ کا خون کھول رہا ہے اوردل میں نہ جانے کیا کیا ”سلواتیں” سنا رہے ہیں تو پھر یاد رکھیں جہاں آپ کو یہ بات یاد ہے” سز وا جزا کا مالک صرف اللہ ہے” یا یہ یاد ہے کہ” ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے” تو وہاں نبی اکرم حضرت محمدۖ کا یہ ارشاد ِ گرامی بھی ذہن میں رکھیں کہ” اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم کو اپنے لیے پسند ہے” اپنی الاود کی اچھی تعلیم و تربیت کے خواہش مندوں کے منہ میں اس وقت کیوں رال ٹپکنے لگتی ہے جب وہ قندیل بلوچ کی نیم عریاں لباس میں تصاویر دیکھتے ہیں۔ارشاد نبویۖ ہے کہ ” مُردوں کو بُرا مت کہو ” اس لیے میں قندیل بلوچ کی سرگرمیوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا قندیل بلوچ کی موت کی آڑ میں مشرقی و پاکستانی معاشرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی جو گردان آپ نے شروع کر رکھی ہے اس کو بند کریں اور ان دانشوروں کی عقل پر تو ویسے ہی ماتم کرنے کو دل کر رہا ہے جو یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ قندیل بلوچ نے یہ راستہ غربت دور کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ کیا کہنے آپ کی سوچ کے ۔۔۔ کیا منطق لائے ہو ڈھونڈ کر۔
کیا غربت دور کرنے کا یہ طریقہ ہے جو قندیل بلوچ نے اپنایا ؟؟؟؟ہمہ وقت دوسروں کا دل لبھانے کے لیے تیار رہنا۔۔ غربت دور کرنے کا طریقہ ہے ؟؟؟ آپ لوگ جتنی ہمدردی کا آج اظہار کر رہے ہیں اسکی زندگی میں اس کی مالی مدد کر کے اس کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔۔۔ بند کریں ایسی من گھڑت تاویلیں۔قندیل بلوچ کے قتل کی مذمت ضرور کریں مگر الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر کریں۔ اللہ ہم سب صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
Rashid Ahmed Naeem
تحریر: رشید احمد نعیم سینئر ممبرکالمسٹ کونسل آف پاکستان چیف ایگز یکٹو حبیب آباد پریس کلب rasheed03014033622@gmail.com 03014033622