تحریر : سید توقیر زیدی انڈین وزیر اعظم کے بلوچستان سے متعلق بیان پر پورے صوبے کے عوام مودی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ شہر شہر ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ریلیوں کے شرکا ”مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے” کے نعرے لگاتے رہے۔ جگہ جگہ ترنگا اور مودی کے پتلے نذر آتش کیے گئے۔ ریلیوں میں ہندو برادری نے بھی شرکت کی۔
کوئٹہ’ سبی’ ڈیرہ بگٹی’ ہرنائی’ قلات’ تفتان’ چمن’ ڈیرہ مراد جمالی’ لسبیلہ’ دالبندین’ پشین، چاغی، نصیر آباد، بولان، مستونگ، مچھ، ڑوب، لورالائی’ نوشکی اور دوسرے کئی شہروں اور قصبوں میں عوام بھارتی پالیسیوں’ اقدامات اور مودی کے بیان کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہے۔ یہ احتجاجی مظاہرے اس امر کا ثبوت ہیں کہ بلوچ عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اس سے علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ ردعمل بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے منہ پر ایک ایسا زناٹے دار تھپڑ ہے’ جس کی گونج انہیں عرصے تک سنائی دیتی رہے گی۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک تازیانہ بھی ہے جن کا خیال تھا کہ غیرملکی فنڈنگ سے چلنے والی عسکریت پسندی کی ہیبت بلوچ عوام کے دلوں پر طاری ہو جائے گی اور وہ اس کے خلاف کسی قسم کے ردعمل کی جرآت نہیں کر سکیں گے’ لیکن جمعرات کے روز بلوچوں نے ان کی سوچوں کو غلط ثابت کر دیا اور ان عناصر کی آنکھیں بھی کھول دیں’ جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ بلوچ عوام کی حب الوطنی کو دولت سے خریدا جا سکتا ہے۔
بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی دور دور تک بکھری ہوئی ہے’ اس کے باوجود جگہ جگہ مظاہرے کرکے بلوچوں نے بے مثال اتحاد’ یگانگت’ ہمت’ نظم و ضبط اور ہم آہنگی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسا شاندار مظاہرہ ملکی تاریخ میں کم کم ہی دیکھنے کو ملا۔ بلوچستان وہ صوبہ ہے’ جس کو ماضی میں بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بے انتہا معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے باوصف یہ باقی صوبوں جتنی ترقی نہیں کر سکا۔ اسی باعث بعض عناصر یہ یقین کر چکے تھے کہ اب یہاں پاکستان کے حق میں بات ہی نہیں ہو سکتی اور حقیقت یہی ہے کہ اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں نے اس صوبے کی طرف وہ توجہ نہیں دی’ جس کا یہ مستحق تھا اور ایک وقت ایسا آیا بھی جب عسکریت پسندی کا اتنا غلبہ ہو گیا تھا کہ بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا اور قومی ترانہ پڑھنا تک محال اور مشکل ہو چکا تھا’ لیکن پھر حکمرانوں کو اس صوبے کا خیال آیا اور پرویز مشرف کے دور حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سابق دور (2008ء تا 2013ء ) میں بلوچستان کی تعمیر و ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور ‘آغاز حقوق بلوچستان’ کے عنوان سے باقاعدہ ایک پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے اس کی رٹ قبول کرنے والے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کو کاروبار’ اپنی زندگی پھر سے شروع کرنے کے لیے رقوم بھی فراہم کیں۔
Balochistan
ان پالیسیوں کے مثبت نتائج سامنے آئے اور عسکریت پسند گروہ در گروہ حکومتی رٹ قبول کرنے لگے۔ بلوچستان کو فساد کا شکار کرنے کے خواہشمندوں کے لیے یہ صورتحال قابل قبول نہ تھی؛ چنانچہ انہوں نے وہاں دہشت گردی شروع کر دی اور ان مذموم کوششوں میں ”را” سب سے آگے ہے۔ اس کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس پہلے سے بھی موجود تھے اور حال ہی میں نریندر مودی نے جو ہرزہ سرائی کی’ اس سے بلوچستان کو فساد زدہ اور شورش زدہ بنانے کی بھارتی سازش کا پول مزید کھل کر سامنے آ گیا ہے’ جس کے ردعمل میں بلوچ نے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کرکے پاکستان کے ساتھ اپنی غیر مشروط وابستگی کا اظہار کر دیا ہے’ پاکستان کے دشمنوں پر واضح کر دیا کہ ان کی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت 45 سال قبل مکتی باہنی کی تحریک چلا کر پاکستان کو دولخت کر چکا ہے۔
اس کا خیال ہو گا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی فنڈنگ کرکے پاکستان پر دوسری کاری ضرب لگائی جائے’ لیکن بلوچستان کے محب وطن عوام نے اپنے ردعمل سے واضح کر دیا ہے کہ ایسی کوئی مذموم کوشش اب کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ”مودی کی جانب سے بلوچستان پر ا?واز بلند کرنا طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے”۔ مطلب یہ کہ مودی کی ہرزہ سرائی سوچی سمجھی سکیم کے تحت کی گئی۔ بھارتی حکومت میں شامل بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ مودی نے یہ کارڈ اس لیے کھیلا کہ ان کے پاس دیگر آپشنز ختم ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں بلوچستان کا ذکر کرکے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے’ جو اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے’ لہٰذا پاکستان کو یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس مداخلت کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔
Kashmir Issue
انہوں نے کہا کہ مودی نے بلوچستان سے متعلق بیان دے کر سرخ لائن عبور کر لی ہے’ بھارتی حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کی آوازیں دبا کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بربریت پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ ترجمان نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کا بیان جموں و کشمیر میں ہونے والے ریاستی ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے’ بلوچستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو بھی مداخلت کا اعتراف کر چکا ہے۔ اگرچہ بلوچ عوام نے بھارتی سازش کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پانی پتھر پر مسلسل گرتا رہے تو اس میں بھی سوراخ کر دیتا ہے’ اس لیے اس مسئلے کا ٹھوس حل بھارتی سازشوں کا مکمل قلع قمع ہی ہے اور اس کے لیے ظاہر ہے جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں’ بھارتی سازش کا جواب سازش اور ڈپلومیسی کا جواب ڈپلومیسی سے دیا جانا چاہیے۔
حکومت بھارت کے حوالے سے جامع’ منظم اور ٹھوس پالیسی اپنائے تو ہندو بنیا بغلیں جھانکتا نظر آئے گا۔ اور آخری بات یہ ہے کہ مودی کی ہرزہ سرائی کے خلاف مظاہرے اور ریلیاں محض بلوچستان کے بجائے پورے ملک میں منعقد کی جاتیں تو اس کے زیادہ اچھے اور مثبت اثرات سامنے آتے۔ مودی اینڈ کمپنی کو یہ تاثر ملتا کہ باقی تین صوبوں کو بلوچستان اس قدر عزیز ہے کہ اپنے ان بھائیوں کو کسی صورت علیحدہ نہیں ہونے دیں گے’ اپنے سینے سے لگا کر رکھیں گے۔ بہرحال ملک گیر مظاہرہ آئندہ دنوں میں بھی ہو سکتا ہے۔