کوئٹہ (جیوڈیسک) بلوچستان میں سائبر کرائم کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین اور سماجی رہنماؤں نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
کہتے ہیں پرہیز علاج سے بہتر ہے مگر آج کے تیز رفتار دور میں بھلا کیوں کوئی انٹرنیٹ کی دلچسپ ویب سائیٹس سے دور رہے گا، ملک میں ہر جانب فیس بک، سکائپ، ٹوئیٹر اور ایسی لاتعداد سائیٹس ہیں جن کے ذریعے لوگ معلومات، دوستی اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں مگر ان جدید ایجادات نے بلوچستان جیسے قبائل معاشرے میں کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔
رابطے کے یہ ذرائع آج کئی خوف ناک واقعات کی وجہ بن رہے ہیں۔ 2007 میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے پی کو کے نام سے قانون متعارف کرایا گیا۔
2012 کو بلوچستان میں سائبر کرائم کا پولیس سٹیشن بھی قائم ہوا مگر بدقسمتی سے 2009 میں یہ قانون ختم کر دیا گیا اور اب پی کا کے نام سے بل آج بھی سینٹ میں منظوری کا منتظر ہے۔
بلوچستان میں جہاں غیرت کے نام پر قتل کو روایات کا حصہ خیال کیا جاتا ہے وہیں انٹرنیٹ نے کئی خاموش کہانیوں کو منوں مٹی تلی دبا دیا مگر سائبر کرائم کے حوالے کے اب تک صرف 10 کیسز کا رجسٹرڈ ہونا باعث تشویش ہے۔