اسلام آباد (جیوڈیسک) بلوچستان حکومت کی طرف سے ریکوڈک منصوبے کو مسلسل نظرانداز کیے جانے پر منصوبے کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے چیئرمین نیب اور کور کمانڈر کوئٹہ کو خطوط لکھ دیے ہیں۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق خط میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس نے پروجیکٹ ڈائریکٹر سمیت اہم افسران کے کنٹریکٹ منسوخ ہونے پر ان کی جگہ کوئی تعیناتی نہیں۔
کی جبکہ رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی منصوبے کیلیے درکار فنڈز نہیں رکھے گئے جس سے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بلکہ عالمی ثالثی عدالت میں بھی ہمارا مقدمہ کمزور ہو رہا ہے حالانکہ ہم گزشتہ سال بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کے مقابلے میں منصوبے پرکم لاگت میں زیادہ علاقے پر کان کنی کی۔ انھوں نے آٹھ اسکوائرکلو میٹر کے رقبے پر 60 ملین روپے کی لاگت سے کان کنی کی جبکہ ان کے مقابلے میں ٹی سی سی نے 3 کلو میٹر کیلیے 250 ملین ڈالر مانگ لیے۔ بعدازاں بین الاقوامی بولی کے بعد یہی کمپنی اسی رقبے کیلیے اب 14 ملین ڈالر پر آمادہ ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے خط میں کہا ہے کہ انھوں نے 28 مئی کو وزیراعلیٰ بلوچستان کو خط بھی لکھا لیکن تاحال اس کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ دو مرتبہ صوبائی حکومت سے اس منصوبے کیلیے 14 ارب روپے مانگے لیکن اب تک کوئی جواب نہیں آیا۔
اگر صوبائی حکومت اس اہم منصوبے میں سنجیدہ نہیں تو پھر اسے سرے سے ختم ہی کر دے لیکن نہ تو حکومت اس حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن جاری کر رہی ہے اور نہ ہی کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔
اس سلسلے پر بلوچستان حکومت کے ترجمان جان بلیدی نے بتایا کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم میں کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، عوام بے فکر رہیں بلوچستان حکومت ملک کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرے گی اور بلوچستان کے ذخائر محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ریکوڈک 500 کلو میٹر کا علاقہ ہے جبکہ ٹی سی سی صرف 15 کلو میٹر پر کام کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے جو فنڈز مانگے ہیں وہ ان کے بارے میں صوبائی حکومت کو مطمئن نہیں کر سکے۔