بلوچستان (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں کالا یرقان یعنی ہیپاٹائیٹس بی اور سی کا مرض ایک وبائی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نصیر آباد ڈویژن کے تمام اضلاع کے علاوہ کوہلو، ڈیرہ بگٹی، موسیٰ خیل، لورالائی اور پشین کے علاقے میں ہیپاٹائیٹس کا مرض بہت زیادہ ہے۔
بلوچستان کے ممتاز معالج ڈاکٹر محبوب علی بلوچ نے بتایا کہ ان علاقوں کے بارے میں تاحال کوئی مناسب سٹڈی نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے اندازے کے مطابق ’ان علاقوں میں ہپاٹائٹس بی 20سے 30 فیصد افراد میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہیپا ٹائیٹس سی بھی 10فیصد پازیٹو ہوگا۔‘
بلوچستان کے جن علاقوں کے لوگ ہیپا ٹائیٹس بی اور سی سے زیادہ متاثر ہیں وہاں اس کے علاج معالجے کا مناسب انتظام نہیں جس کے باعث مریضوں کو سینکڑوں کلومیٹر دور سے کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔
کوئٹہ شہر میں بھی ہیپا ٹاٹیٹس کنٹرول پروگرام کا ایک مرکز ہے جس کی وجہ سے ہر وقت مریضوں یا ان کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہوتی ہے۔
ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام بلوچستان کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل میروانی نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس مرکز پر موجود مریضوں میں سے اکثر کو یہ شکایت تھی کہ ان کو بروقت ادویات نہیں ملتی ہیں۔
ان مریضوں میں30سالہ رحمت اللہ کا تعلق جعفر آ باد سے ہے۔ وہ سات سال سے ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’محکمہ صحت نے جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اچھا ہے لیکن یہ چوتھا پانچواں روز ہے ادھر کو ئی میڈیسن ہمیں نہیں مل رہی۔‘
ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے ایک اور مریض کشمیر خان نے بتایا کہ انھیں ایک ہفتہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک دوا ئی نہیں ملی ہے۔ ایک شخص زوہیب کا کہنا تھا کہ ’روز انہ دو تین دن کا کہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ایک ہفتے کے بعد آؤ ۔تا ریخ پر تاریخ دیتے جا رہے ہیں۔‘
ہیپاٹائیٹس کنٹرول پروگرام بلوچستان کے سربراہ ڈاکٹر اسماعیل میروانی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ہیپا ٹاٹئیٹس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے مر یضوں کم تھے لیکن اب مر یضوں کی تعدا د دن بدن بڑھ رہی ہے ۔پہلے کے مقابلے میں اب علاج معالجے کی زیادہ سہولت ہے۔ گذشتہ سال ہپا ٹا ئٹس بی اور سی کے مریضوں کا مکمل ٹریٹمنٹ کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ادویات فراہم کی جاتی ہیں لیکن نظم و ضبط اختیار نہ کرنے کی وجہ سے مریضوں کے علاوہ مرکز کے عملے کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ روزانہ 50 مریضوں کو بلایا جاتا ہے لیکن جب روزانہ دو تین سو لوگ آتے ہیں تو مشکل پیش آتی ہے۔
ماہرین صحت نے اس پر زور دیا کہ بلوچستان میں ہیپاٹائیٹس کے مسئلے کو نہ صرف سنجیدہ لیا جائے بلکہ اس سے بچنے کے لیے لوگوں میں شعور بھی اجاگر کیا جائے۔