پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ مخصوص مفادات کے لئے پاکستان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ 12اپریل کے دن پورے ایک برس بعد ہزارہ برداری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ کی ہزار گنجی میں واقع فروٹ و سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 20 افرادجاں بحق جبکہ 40سے زاید زخمی ہوئے۔اس افسوس ناک واقعے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار بھی جاں بحق ہوئے ۔ واضح رہے کہ کہ خراب حالات کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کی نگرانی میں روزانہ کی بنیاد پر سبزی منڈی کے تاجر آتے و جاتے تھے ۔ ایک بم ڈیوائس جو کہ ایک آلو کی بوری میں رکھا گیا تھا ۔ اس کے پھٹنے کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا ضائع ہوا ۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق اس واقعے میں اندرون خانہ مارکیٹ کا کوئی فرد ملوث ہوسکتا ہے کیونکہ گاڑیوں کی آمد و رفت کا علم مارکیٹ میں کام کرنے والوں کو ہی ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعہ جمعہ کی صبح پونے آٹھ بجے کے قریب اس وقت پیش آیا تھا جب ہزارہ ٹاؤن سے خریداری کے لیے آنے والے سبزی فروش خریداری میں مصروف تھے کہ آلو کی ایک بوری میں ٹائم ڈیوائس کے ذریعے ایک دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 8 ہزارہ و دیگر افراد کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔واضح رہے کہ اس حملے میں ہزارہ برادری کے افراد کو ہی نہیں ٹارگٹ کیا گیا بلکہ اس کی زد میں آ کر دیگر افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ جن میں بعض کا تعلق بڑیچ اور رند قبائل سے بھی بتایا جا رہا ہے۔جاں بحق ہونے والا سکیورٹی اہلکار بھی مقامی بتایا جاتا ہے۔ ہزار گنجی کوئٹہ کے نواح میں واقع ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ سیکڑوں مزدور روزانہ کی اجرت پہ وہاں کام کرتے ہیں۔دن کے دوسرے حصے میں عام کاروباری حضرات اور گاہکوں کی آمد ہوتی ہے۔اس سے قبل صبح سویرے وہاں زیادہ تر آڑھتی اور مزدور ہی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اس دہشت گردی کے واقعے میں ہزارہ برادری کے ساتھ دیگر قبائلی افراد بھی نشانہ بنے۔
گزشتہ روز پشاور کے علاقے حیات آباد فیز 7 میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان تقریباً 17 گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس کے دوران ایک پولیس اہلکار شہید اور 5 دہشت گرد مارے گئے تھے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج اور پولیس نے حیات آباد میں خفیہ اطلاعات پر دہشتگردوں کی پناہ گاہ پر کارروائی کی، فائرنگ کے تبادلے میں اے ایس آئی قمر عالم شہید اور ایک جوان اور افسر زخمی ہوا۔ایڈیشنل آئی جی ہم ڈسپوزل یونٹ شفقت ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ گھر میں 50 سے 60 کلو گرام بارودی مواد نصب کیا گیا تھا جسے ناکارہ بنانے کے دوران گھر میں زور دار دھماکا ہوا اور وہ منہدم ہوگیا۔ دہشت گردی کے ان دو واقعات کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان میں ایک بار پھر اوماڑہ کے مقام پر بس سے مسافروں کو شناخت کرکے ہلاک کیا گیا ۔ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں مسافر بسوں پر نامعلوم افراد کے حملے میں کم از کم 14 افراد جاں بحق کئے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ نام نہادعلیحدگی پسند تنظیموں کے مشترکہ گروپس بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز پر مشتمل اتحاد ‘بلوچ راجی آجوہی سنگر’ (براس) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اتحاد کے ترجمان نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ جن افراد کو نشانہ بنایا گیا ان کے پاس پاکستان نیوی اور کوسٹ گارڈز کے کارڈ تھے اور شناخت کے بعد ہی ان کو قتل کیا گیا۔تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ یا کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام نہاد علیحدگی پسند تنظیم کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق مسلح افواج سے تھا۔تاہم اے ایف پی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دو اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی نے کی ہے۔
سی پیک منصوبے کی وجہ سے مکران نیشنل ہائی وے کے علاقے میں آمد ورفت میں اضافہ شروع ہوگیا ہے ۔ کوسٹل ہائی وے میں ہونے والا واقعہ ہزار گنجی کوئٹہ کے ایک ہفتے بعد رونما ہوا ۔واضح طور پر دہشت گردوں کے مقاصد واضح ہیں کہ بلوچستان میں فرقہ وارنہ بنیادوں پر قتل و غارت کی جائے تو دوسری جانب تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن سی پیک منصوبے کو غیر محفوظ بنانے کی سازش کی جا سکے۔ بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کی جانب سے بلوچستان کومسلسل عدم استحکام کرنے کے لئے بھارت اور افغانستان کی دہشت گرد ایجنسیاں اپنے سازشی منصوبوں میں مصروف ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ” ہزارہ پر حملہ، پھرحیات آباد میں TTP اور پھر آج کوسٹل ہائی وے کا بہیمانہ واقعہ۔۔ ایک منظم پیٹرن نظرآرہا ہے، ہم نے امن کیلئے بہت قربانی دی ہے، انشااللہْ ہم ان واقعات کے ذمہ داران کو مثال عبرت بنا دیں گے، ہم نے دہشتگردی کی جنگ میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیںلیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی”۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان سے د ہشت گردوں کی آمدو سہولت کاری کو روکنے کے لئے پاکستان نے اپنی مدد آپ کے تحت افغان۔پاکستان بارڈر کو محفوظ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ جس کے بعد پاکستان نے پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی علاقے کو بھی محفوظ بنانے کے لیے بارڈر پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعے میں ایران کی سرزمین کے استعمال کئے جانے پر پاکستان نے ایران سے سخت احتجاج کیا ہے ۔رپورٹس کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے درمیان باڑ لگانے کا کام موجودہ برس دسمبر تک مکمل ہوجائے گا جبکہ حکومت نے پاکستان اور ایران کے درمیان 907کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان پر کئی بار الزامات بھی لگائے جا چکے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں ایرانی پاسدارن کے اہلکاروں کے اغوا کو لے کر پاک۔ ایران تعلقات میں سرد مہری بڑھی تھی تاہم پاکستان نے ایرانی فورسز کے ساتھ مل کر مربوط کاروائی میں ایرانی اہلکار بازیاب کرا لئے تھے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تیسرا فریق غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے سرحد کے آر پار تخریب کاری کراتا رہا ہے۔ تاہم سرحد پر مشترکہ فوجی گشت کا پاکستان اور ایران کے مابین معاہدہ ہو چکا ہے۔تجارتی اسمگلنگ کے علاوہ انسانی اسمگلنگ اور شدت پسندوں کی جانب سے متعدد کاروائیوں کی وجہ سے معاملات میں غلط فہمیوں کو پاکستان نے ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ایران کو خاص طور پر سعودی عرب سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات سمیت سی پیک منصوبے میں شراکت پر تحفظات موجود ہیں ۔ تاہم پاکستان نے ایران کے تحفظات کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر ایران اور پاکستان کے درمیان بارڈر کو باڑ یا دیوار کے ذریعے بند کرنا بھی ہے تاہم جائز آمدورفت اور تجارت کے لیے انٹری پوائنٹس پر گیٹس لگانے کا منصوبہ افغان بارڈر طرزپر لگائے جا رہے ہیں۔ پاک ایران سرحد پر باڑ کی تنصیب دونوں ممالک کے مفاد میں ہے لہٰذا دونوں ممالک کو اپنے حصے کی باڑ کے اخراجات اصولی طور پر برداشت کرنے چاہئیں۔تاہم طلاعات کے مطابق ایران تعاون نہیں کرتا تو بھی پاکستان اپنی مدد آپ کے تحت بارڈر پر باڑ لگانے کے فیصلے پر کام کرے گا ۔ تاکہ ملکی سرحدوں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کے لئے ہر ممکن حد تک پاکستان اپنی زمے داری پوری کرسکے ۔
بھارت میں اس وقت لوک سبھا کے لئے دوسرے مرحلے کے انتخابات ہو رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں جاری انتخابات کے دوسرے مرحلے کی پولنگ کے دوران 11 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام خطے پڈوچیری میں لوک سبھا کی 95 نشستوں کے لیے جمعرات کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔پہلے مرحلے میں 11 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے جب کہ پولنگ کا آخری مرحلہ 19 مئی کو ہوگا۔ بھارت کا الیکشن کمیشن 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہکرے گا۔ریاست تمل ناڈو کی 39 میں سے 38 نشستوں کے لیے بھی جمعرات کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ البتہ تمل ناڈو کے حلقے ویلور میں الیکشن کروڑوں روپے کی رقم پکڑے جانے کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔تمل ناڈو کے علاوہ کرناٹک میں 24، مہاراشٹر میں 10، اتر پردیش میں آٹھ، آسام، بہار اور اڑیسہ میں پانچ پانچ، چھتیس گڑھ اور مغربی بنگال میں تین تین، بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو اور منی پور اور پڈوچیری میں ایک ایک نشست کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ اڑیسہ کے 35 اسمبلی حلقوں کے لیے بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔دوسرے مرحلے میں 1600 امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس مرحلے میں کل 15 کروڑ 80 لاکھ ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔مزید پانچ مرحلوں میں 23 اور 29 اپریل، 6، 12 اور 19 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔
جو اہم شخصیات اس مرحلے میں میدان میں ہیں ان میں مرکزی وزرا جتیندر سنگھ، سدا نند گوڑا، بی جے پی کی امیدوار ہیما مالنی، سابق وزیرِ اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا، اے راجہ، کنی موژی، راج ببر، فاروق عبداللہ اور ویرپا موئلی قابل ذکر ہیں۔
بلوچستان میں بے امنی پیدا کرنے کے حوالے سے بھارت کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔ خاص طور پر جب سے سی پیک منصوبے پر کام شروع ہوا ہے تو بھارت کی سازشوں نے بلوچستان میں دہشت گردی کے پروان چڑھانے کے لئے ہر حد کو پار کرنے کا عزم کیا ہوا ہے ۔ بلوچستان اوماڑہ اور دیگر حساس علاقوں میں بسوں سے اتار پر شناخت کے بعد ٹارگٹ کلنگ کرنا ، بھارت کی دہشت گردی ذیلی نام نہاد قوم پرست تنظیموںکا وتیرہ رہا ہے۔ ایسے متعدد واقعات ہوچکے ہیں جس میں شناخت کے بعد بسوں سے اتار کر مسافروں اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کے محنت کشوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا تی رہی ہے۔اور ان واقعات کی ذمے داری بھارتی فنڈنگ سے چلنے والی یہ دہشت گرد نام نہاد تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔پاکستانی مسلح افواج کی مربوط منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان میں تیزی سے امن قائم ہو رہا ہے لیکن ملک دشمن عناصر کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کے خلاف نام نہاد علیحدگی پسند گروپوں نے مشترکہ اتحاد بنا لیا ہے ۔ جیسے ” براس” (‘بلوچ راجی آجوہی سنگر’)کا نام دیا گیا ہے۔جو نام نہاد دہشت گرد قوم پرست مسلح جماعتوں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریبلکن گارڈز نے قائم کیا ہوا ہے۔ دہشت گرد اتحاد ” براس” پاکستانی فوج اور خاص کر میڈیا کے خلاف مذموم کاروائیاں کرکے بھارتی مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے۔کوسٹل ہائی وے پر”بزی پاس”کے قریب مسافر بسوں پر حملے کا مقصد پاکستان اور چین کو دھمکی دینا تھا کہ وہ فوراََ گوادر سمیت بلوچستان سے انخلا کریں۔ بصورت دیگر مزید سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں ہیں۔ ” براس ” نامی دہشت گردوں کے اتحاد نہتے ، محنت کش اور مظلوم عوام کو نشانہ بنا کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتی ہے ۔ دہشت گرد اتحاد ” براس ” کبھی ہزارہ برداری تو کبھی محنت کشوں کو نشانہ بنا کر اُس کی ذمے داری قبول کرنے کے باوجود مضحکہ خیز مظلوم بننے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔
بلوچستان کے وسائل و معدنی دولت پر نام نہاد قوم پرست قابض ہیں جو غریب بلوچ عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے بجائے دنیا میں ریاست کے خلاف جھوٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف رہتی ہے۔ ریاست نے بھارتی عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے ان دہشت گردوں کو پاک سر زمین سے بھاگنے پر مجبور کیا ۔ لیکن افغانستان کی سرزمین اور بھارت مالی فنڈنگ کی وجہ سے منظم دہشت گردی کی کاروائی کی جاتی ہے۔ نام نہاد قوم پرست بلوچ عوام کے وسائل کو لوٹ کر مظلوم بھی بنتے ہیں اور جھوٹے پروپیگنڈے کرکے پھولوں کے ہار بھی پہننا چاہتے ہیں ۔ لیکن پاکستان کے حساس اداروں نے ان کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی ہے تاہم ضمیر فروشوں اور سہولت کاروں ی وجہ سے افسوس ناک دہشت گردی کے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ ” براس ” براہ راست میڈیا کو بھی اپنے نشانے پر رکھتا ہے اور اپنے من پسند بیان کو جاری نہ کرنے پر انہیں دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے۔ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں براہ راست ملوث ہوتے ہیں ۔ کروڑوں روپے تاوان کی مد میں وصول کرکے ریاست کو ہی بدنام کرتے ہیں۔ سرحدوں پر تیل اسمگلنگ سمیت انسانی اسمگلنگ کرکے جہاں پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو دوسری جانب غیر قانونی تجارت سے اجرتی قاتل بھرتی کرکے بلوچستان کے حالات خراب کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ” براس ” دراصل گوادر میگا پراجیکٹ سی پیک اور دیگر تمام منصوبوں کوناکام بنانا چاہتی ہے۔ اس طرح وہ بلوچ و پشتون عوام کی خدمت نہیں بلکہ ان کے ساتھ براہ راست دشمنی کرکے بھارتی ایجنڈا پورا کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان و خیبر پختونخوا میں رہنے والی تمام قومیتیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ ان دہشت گرد تنظیموں کا گٹھ جوڑ بھارت کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کی کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کی امن تصفیئے کی کوششوں کو کابل حکومت ناکام بنانے کے لئے عجیب طریقے اختیار کررہی ہے۔ ممکنہ طور پر اپریل میں دوحہ میں ہونے والی کانفرنس میں250افراد کی طویل فہرست پر افغان طالبان نے حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ کیا کانفرنس کے بجائے شادی کا کابل کے ہوٹل میں کسی تقریب کا دعوت نامہ ہے ۔ افغان طالبان نے 19سے21اپریل کو ممکنہ کانفرنس میں کابل حکومت کی جانب سے دیئے گئے ناموں کی فہرست کی سرکاری حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ وفود ذاتی حیثیت میں شریک ہونگے۔ کابل حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ کے باعث دوحہ کانفرنس موخر ہوگئی۔ پاکستان خطے میں امن کے لئے کوششیں کررہا ہے لیکن خطے میں امن کے دشمن پاکستان کو امن قائم کرنے کی سزا دے رہے ہیں۔ ایک جانب بھارت انتخابات کی آڑ میں اقتدار کے لئے پاکستان کے خلاف ہر قسم کا حربہ استعمال کرنے سے نہیں چوک رہا ۔ بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے کے باوجود پاکستان میں ” را ” کی دہشت گرد ذیلی تنظیموں کا اتحادی گروپ ” براس ” و کالعدم تنظیمیںشدت پسندی کی کاروائیوں میں مصروف ہے ۔ تو دوسری جانب افغانستان پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے لئے مختلف سازشیں کررہا ہے۔
افغانستان نے پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب پاکستان کے معاوندانہ رویئے کے برخلاف پاکستان پر نکتہ چینی کا موقع ضائع کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کا حیات آباد میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مقابلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایک طرف سے بھارت بلوچستان کے راستے پاکستان کو عدم استحکام کرنا چاہتا ہے تو دوسری جانب افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں کی سہولت کاری کرکے حیات آباد جیسے واقعات کی سرپرستی بھی کرتا نظر آتا ہے۔ ان قسم کے اقدامات کا مقصد خطے میں امن کا عمل متاثر کرنا اور پاکستان کو معاشی مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔ شمالی مغربی سرحدوں پر کالعدم تنظیموں کی کاروائیاں ہوں یا بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کے منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے ، ان سب کو ناکامی و سبکی کا سامنا ہے۔ کیونکہ پاکستانی افواج نے قربانیوں کے بعد ملک بھر میںامن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ تاہم کوسٹل ہائی وے اور ہزار گنجی جیسے بزدلانہ واقعات سے عوام میں بے چینی پیدا کرنے اور ریاست کے خلاف بھڑکانے کی تمام سازشوں کو ناکامی کا سامنا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت نام نہاد قوم پرست دہشت گرد تنظیموں کا ” براس ” کے نام سے اتحاد ہے کیونکہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اپنے مذموم عزائم کو کامیاب کرنے میں ناکام ہو چکے تھے لہذا شکست خوردہ عناصر نام نہاد اتحاد بنا کر منفی اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے ریاست یا میڈیا کو گمراہ و خوف زدہ نہیں کرسکتی ۔ میڈیا ان نام نہاد قوم پرستوں کے کالے کرتوت پہلے بھی ظاہر کرتا ہے اور اب بھی ان کے مکروہ چہروں سے فریب کی نقاب کو کھینچتا رہے گا اور ان کے مزموم عزائم کو بے نقاب کرتا رہے گا ۔ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا کا کوئی علاقہ ہو۔ دہشت گردوں کی تمام کاروائیوں کے خلاف عوام ایک صف پر کھڑے ہیں ۔ انہیں سیاسی جماعتوں کے اختلافات سے کوئی سروکار نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ملک دشمن عناصر جتنی قوت صرف کرتے ہیں پاکستانی عوام اس سے زیادہ آہنی دیوار بن جاتے ہیں۔