بلوچستان (اصل میڈیا ڈیسک) مچھ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کسم پرسی کی حالت میں کام کرنے والے کان کنوں کے مسائل ایک مرتبہ پھر اجاگر ہو گئے ہیں۔ آخر ان کان کنوں کی حفاظت اور بنیادی ضروریات ِ زندگی کس کی ذمہ داری ہے؟
بلوچستان کے علاقے مچھ کی کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کو بے دردی سے قتل کرنے کا واقعہ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر گشتری کے مقام پر پیش آیا۔ اس علاقے میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں روز کا معمول ہیں، جس سے سکیورٹی کی مخدوش حالت کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ مگر سکیورٹی کے علاوہ دیگر مسائل کی بہتات نے بھی ان کان کنوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقے کوئلے اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا پیشہ کان کنی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں تقریباﹰ 40 ہزار افراد کان کنی سے وابستہ ہیں، جو تقریباﹰ 1700 فٹ سے زیادہ گہرائی سے کوئلہ نکالتے ہیں۔ واضح رہے کہ کوئلے کی کانوں میں 800 سے 1000 فٹ کے بعد زہریلی گیس والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں مزید کھدائی کے لیے کان کنوں کو حفاظتی آلات دینے کے ساتھ کانوں کی چھت کو ایک خاص تکنیک سے بنایا جاتا ہے تاکہ دھماکے کی صورت میں اندر پھنسے مزدوروں کو با آسانی نکا لا جا سکے۔ لیکن بلوچستان کی کانوں میں اس طرح کی کوئی تکنیک زیر استعمال نہیں اور گیس بھرنے کے بعد دھماکے سے عموماﹰ کان کنوں کی لاشیں تک نہیں ملتیں۔
یہاں کان کنی کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں سوات اور شانگلہ سے ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ ان علاقوں میں سکیورٹی کی مخدوش حالت نے اب ایک اور سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ چمالنگ، مارگٹ، مارواڑ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی کانوں میں مزدوروں کی حفاظت کے انتظامات نہیں ہیں۔
حلیم مائنز فیڈریشن سے وابستہ ایک مزدور کے مطابق ان کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر کان کن پڑھے لکھے نہیں ہیں لہذا وہ گہری کانوں میں کھدائی کے لیے لازمی حفاظتی انتظامات سے واقف ہی نہیں ہیں،”مزدوروں کی اکثریت سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا شکار ہے مگر کان کی انتطامیہ کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ شدید بیماری میں بھی ہمیں کوئی میڈیکل الا ؤنس نہیں دیا جاتا۔ زیادہ تر کان مالکان نے انتظامات مقامی ٹھیکیداروں کے حوالے کیے ہوئے ہیں لہذا ان تک ہماری آواز صرف کسی بڑے سانحے کی صورت میں ہی پہنچتی ہے۔ خود روزانہ لاکھوں کمانے والے ہمیں بمشکل 1ہزار یومیہ دیہاڑی دیتے ہیں۔‘‘
کوئٹہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنجدی کوئلہ فیلڈ میں کام کرنے والے وزیر خان کہتے ہیں کہ ہزارہ مزدوروں کے قتل سے یقیناﹰیہاں کام کرنے والے دیگر کان کنوں میں خوف بڑھا ہے،”ہماری حالت پر اس بڑے واقعے سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ سن 2018 سے اب تک ہر برس200 سے زائد کان کنوں کی مختلف حادثات میں اموات ہوئی ہیں، مگر ہماری کوئی شنوائی نہیں۔ یہ کانیں نہیں ہماری قبریں ہیں اور ہمیں نا مسائد حالات سے لڑتے لڑتے مر کر انہی میں دفن ہو جانا ہے۔‘‘
بلوچستان میں کان کنوں کی اموات کوئی نئی بات نہیں مگر سالہا سال سے میڈیا اور ہر فورم پر آواز اٹھائے جانے کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔البتہنجی سطح اس حوالے سے کوششیں جاری ہیں اور چند برس قبل بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے طلباء نے کان کنوں کی حفاظت کے لیے ایک خاص سینسر بیسڈ ہیڈ گیئر یا ہیلمٹ تیار کیا تھا،جس میں انسٹال ارلی وارننگ سسٹم گہری کانوں میں کھدائی کے دوران زہریلی گیس کے اخراج کے ساتھ ہی وارننگ سگنل دیتا ہے۔ اس سے مزدور کان کی چھت بیٹھنے یا دھماکے سے پہلے کان سے نکل سکتے ہیں۔ مگر صوبائی حکومت نے اس منصوبے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ بہت سی کانوں میں مزدور کسی ہیڈگیئر کے بغیر ہی کام کرتے ہیں اور کانوں میں زہریلی گیس کے اخراج کے لیے وینٹی لیٹر فین یا اخراج کے پائپ تک موجود نہیں ہیں یا بہت ہی خستہ حالت میں ہیں۔