پلوچستان (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے کہا ہے کہ سول ہسپتال میں خودکش دھماکے کے بعد دارالحکومت کوئٹہ میں کومبنگ آپریشن کیا جائے گا اور پورے صوبے میں جہاں جہاں دہشت گرد موجود ہوں گے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
پیر کی صبح کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک شدگان کی تعداد 71 تک پہنچ گئی ہے اور اس واقعے پر سرکاری سطح پر تین روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔
آرمی چیف کی سربراہی میں راولپنڈی میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں کہا گیا کہ کوئٹہ حملہ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابیوں کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔
بلوچستان پولیس نے اس خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی درخواست بھی کی ہے۔
وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری نے سول ہسپتال کے دورے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کے دوران متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے تاہم اس کی تفصیلات میڈیا کو نہیں بتائی جا سکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں افغان اور انڈین خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے جا چکے ہیں اور گرفتار افراد کو میڈیا سے سامنے بھی پیش کیا جا چکا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو نیشنل ایکشن پلان پر تفصیلی بات چیت کے لیے اجلاس بھی طلب کیا ہے۔
میڈیا پلیئر کے بغیر آگے جائیںمیڈیا پلیئر کے لیے مددمیڈیا پلیئر سے باہر۔ واپس جانے کے لیے ’enter کا بٹن دبائیں اور جاری رکھنے کے لیے tab دبائیں۔
یہ دھماکہ پیر کی صبح شہر کے سول ہسپتال کے شعبۂ حادثات کے باہر ہوا تھا اور نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار عطااللہ لانگو نے بتایا ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے وکلا کی تعداد 40 سے زائد ہے۔
کوئٹہ کے ڈی آئی جی آپریشن چوہدری منظور سرور نے بتایا کہ دھماکے کے خودکش ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے اور خودکش حملہ آور کی باقیات تجزیے اور شناخت کے لیے متعلقہ اداروں کے سپرد کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی انوسٹیگیشن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے تاہم صوبائی حکومت کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے لیے خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔
منگل کو وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ملک کی داخلی سکیورٹی صورتحال اور نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے نظریےسے حالتِ جنگ میں ہیں جو ہمارے طرزِ حیات کو بدلنا چاہتا ہے۔ انھوں نے ملک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے پاک کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے پیر کو کوئٹہ میں وکیل رہنما کی ہلاکت اور بعد میں سول ہسپتال میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
شمعیں روشن کرنے کی بڑی تقریب سول ہسپتال کوئٹہ میں اس مقام پر ہوئی جہاں بم دھماکہ ہوا تھا جس وقت دھماکہ ہوا تو ہسپتال میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی میت لائی گئی تھی جنھیں پیر کی صبح ہی کوئٹہ کے علاقے منوں جان روڈ پر نامعلوم افراد نے گھر سے عدالت جاتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی ان کے آبائی علاقوں میں تدفین کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور اس موقع پر صوبے بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے۔
سوگ کے موقع پر تمام سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے جبکہ کوئٹہ شہر کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔
کوئٹہ سے نامہ نگار کے مطابق دھماکے کے خلاف انجمن تاجران کی کال پر کوئٹہ بھر کے کاروباری مراکز میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے اور شہر میں ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔
منگل کی شام کوئٹہ میں خود کش بم حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے وکلا اور دیگر افراد کی یاد میں مختلف مقامات پر شمعیں بھی روشن کی گئیں۔
شمعیں روشن کرنے کی بڑی تقریب سول ہسپتال کوئٹہ میں اس مقام پر ہوئی جہاں بم دھماکہ ہوا تھا۔
دھماکے کے بعد ملک کی اعلیٰ شخصیات کے کوئٹہ کے دوروں کا سلسلہ جاری ہے تقریب میں اعلیٰ سویلین اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی، جن میں چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چھٹہ اورانسپیکٹر جنرل فرنٹیئر کور میجر جنرل شیر افگن بھی شامل تھے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اس واقعے پر سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر کوئٹہ سمیت ملک بھر میں وکلا نے منگل کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے جبکہ ملک کے مختلف شہروں میں وکلا احتجاجی ریلیاں بھی نکال رہے ہیں
منگل کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے مختلف بینچوں میں بھی عدالتی کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔ دھماکے کے بعد ملک کی اعلیٰ شخصیات کے کوئٹہ کے دوروں کا سلسلہ جاری ہے۔