تحریر : صباء نعیم بلوچستان جہاں اپنے جغرافیائی، سیاسی، معدنی، تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہاں دلفریب، خوبصورت، سحر انگیز اور پرْکشش مقامات کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس وجہ سے سال بھر سیاحوں کے علاوہ مقامی لوگ بھی ان تفریح گاہوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔بلوچستان میں کئی تفریح گاہیں ہیںجن میں زیارت، ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک، ہر بوئی کے جنگلات، ہنگول نیشنل پارک، زنگی ناور جھیل، حب ڈیم وغیرہ قابل ذکر ہیں، لیکن اس وقت صرف ایک تفریح گاہ درون نیشنل پارک کا تذکرہ مقصود ہے۔ درون نیشنل پارک، لسبیلہ شہر کے مغرب میں 115کلومیٹر کے فاصلے پر سب تحصیل جھاہو ضلع آواران قلات ڈویڑن میں واقع ہے۔ یہ نیشنل پارک، پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک ہے۔ اس کے شمال میں کوہاڑندی، جنوب میں دریائے ہنگول مشرق میں دریائے آراء اور مغرب میں دریائے نال واقع ہیں۔
اس نیشنل پارک کی سب سے اونچی چوٹی کا نام ”سرکوہ” ہے، جو 5185فٹ بلند ہے،اس چوٹی پر ہندوستان سے فرار ہونے والے بادشاہوں اور شہزادوں نے ایک واچ پاور بنوایا تھا تاکہ ان کے تعاقب میں آنے والوں کی نگرانی کی جاسکے اس ٹاور کے مقام سے لسبیلہ ”اوتھل” اور کراچی کے اکثر علاقہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔یہ ٹاور اب بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے دور اقتدار میں اس علاقے کے 300667ہیکٹر رقبے کو گیم سنی کچری ایسا علاقہ جہاں جنگلی حیات کا شکار نہ کیا جاسکے بنوایا تھا اور باقی علاقے کو شکار گاہ کی حیثیت سے باقی رکھا تھا تاکہ شکاری قانونی طور پر شکار لائسنس پر شکار کھیل سکیں۔ 1988ء میں درون کے تمام علاقے کو جس کا رقبہ 167,700ہیکٹر ہے
حکومت بلوچستان نے نیشنل پارک قرار دے دیا نیشنل پارک اس علاقے کو کہا جاتا ہے، جہاں قدرتی مناظر، نباتات اور حیوانات وغیرہ کو ان کی قدرتی حالت میں محفوظ رکھنا مقصود ہو۔ درون نیشنل پارک میں سراح بکرا، اڑیال، چنکارہ ہرن، خرگوش، جنگلی مور، بجو، چیتے، بھڑیئے، جنگلی بلی، چیتا بلی، لومڑی، گیڈر چرخ اور پرندوں میں تیتر، سیسی، کوہی، کبوتر، نرگٹ وغیرہ ملتے ہیں اڑدھے، زیریلے سانپ، گوہ اور مور خور بھی ہیں کئی مقامات پر دریاو?ں اور چشموں میں مہاشیر مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔ وحشی جانوروں میں چیتے کی مرغوب غذا پہاڑی بکرے اور اڑیال کا گوشت ہے مگر یہ درندے بعض اوقات مقامی لوگوں کے پالتو جانوروں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔
Derawar Fort
روایتی اور تاریخی مقامات درون نیشنل پارک انتہائی دلچسپ اور پرْاسرار مقامات اور روایات کے لیے مشہور ہے۔ بیلہ سے درون جاتے ہوئے لکھ جاہو کے مقام پر راستے میں شیریں فرہاد کا مقبرہ ہے، سرکوہ یعنی خستہ ٹاور تک جانے کا راستہ نہایت دشوار گزار ہے۔ ایک مقام پر تیس چالیس فٹ عمودی چٹان کو اسی کی مدد سے ہی عبور کیا جاسکتا ہے۔مقامی لوگوں نے وہاں رسی اور تار لٹکا رکھی ہے اور دینی کھچو، ایک تل اور چاکہ کور کے مقامات پر شبہ غیب کے نام سے زیارت گاہیں موجود ہیں۔ سیر کوہ کے مقام پر ہندوستان سے فرار ہونے اور شکست خوردہ بادشاہوں اور شہزادوں کا بنوایا ہوا ٹاور ہے۔ کروچھب کے مقام پر ایک چٹان پر ایک گھوڑی اور اس کے بچے کے پاوں کے نشانات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ بعض مقامات پر کمان کے تیر نظر آتے ہیں۔ بری کے مقام پر ایک قبرستان ہے، جسے گبروں آتش پرستوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ اس کی قبروں کے سرہانے مختلف سمتوں میں ہیں۔ ہنکینی بینٹ کی ایک چٹان پر چھوٹے بچے کے پاوں کے نشانات ہیں۔کچکول کے مقامات پر کچکول نما تالاب ہے، جہاں پہاڑی بکرے پانی پینے آتے ہیں۔
یہ تالاب سو فٹ سے بھی زیادہ گہرا ہے لاکرو کے مقام پر ایک بڑا اڑدھا ہے، جہاں لوگ ڈر اور خوف سے نہیں جاتے یہ اڑدھا دور سے ایک اونٹ کے بچے کی مانند نظر آتا ہے کنڈی کے مقام پر ایک پہاڑی سے ہر سال گرمیوں کے موسم میں گڑگڑاہٹ کے ساتھ شعلے نکلتے ہیں اور ہلکے پیلے رنگ کا لاوا دور دور تک پھیل جاتا ہے۔