بلوچستان (جیوڈیسک) پاکستانی صوبہ بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک بس میں سوار کم از کم چودہ افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ خونریز واقعہ اور ماڑہ کے ساحلی قصبے کے قریب مکران نیشنل ہائی وے پر جمعرات اٹھارہ اپریل کی صبح پیش آیا۔
ملک کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ ہلاک شدگان کوئٹہ سے اسی صوبے کے بندرگاہی شہر گوادر جا رہے تھے۔ بلوچستان کے صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق حملہ آوروں نے نیم فوجی فرنٹیئر کور کے دستوں کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
حیدر علی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’حملہ آوروں نے ان افراد کو ساحلی شاہراہ مکران نیشنل ہائے پر سفر کرنے والی ایک بس سے اتارا اور فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ ہلاک شدگان کی تعداد کم از کم بھی 14 ہے۔‘‘
فوری طور پر کسی بھی مسلح گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
حکام کا خیال ہے کہ یہ یا تو شدت پسند فرقہ ورانہ تنظیموں میں سے کسی کی کارروائی ہو سکتی ہے یا پھر اس کے پیچھے بلوچستان کے وہ مسلح علیحدگی پسند قوم پرست بھی ہو سکتے ہیں، جو صوبے میں بار بار مسلح حملے کرتے رہتے ہیں۔
اورماڑہ کے ساحلی قصبے میں یہ حملہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں کیے گئے اس حالیہ دہشت گردانہ حملے کے صرف تقریباﹰ ایک ہفتے بعد کیا گیا ہے، جو مذہبی منافرت کی بنیاد پر کیا جانے والا ایک خود کش بم دھماکا تھا اور جس میں 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والوں میں سے اکثریت ہزارہ شیعہ پاکستانیوں کی تھی۔ صوبائی ہوم سیکرٹری حیدر علی کے مطابق آج کے حملے میں جو افراد ہلاک ہوئے، ان میں پاکستانی بحریہ کا ایک اہلکار اور ملکی ساحلوں کی حفاظت کرنے والے دستوں کا ایک رکن بھی شامل ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی کو پولیس افسر محمد عبداللہ نے بتایا،’’ جب مزدور ایک پرانے بحری جہاز کی توڑ پھوڑ کر رہے تھے اس وقت آئل ٹینک پھٹ گیا تھا۔‘‘ ابتدائی رپورٹس کے مطابق آئل ٹینک میں دھماکہ ہونے کے بعد درجنوں مزدور پھنسے رہے جبکہ کئی مزدوروں نے اپنی زندگیاں بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
ایک مقامی انٹیلیجنس اہلکار کے مطابق اس بس میں سوار جن مسافروں کو اتار لیا گیا، ان کی تعداد 16 تھی اور ان میں سے صرف دو ایسے تھے، جو حملہ آوروں کی فائرنگ کا نشانہ بننے سے بچ گئے۔ اس انٹیلیجنس اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ 14 ہلاک شدگان میں سے متعدد ایسے پاکستانی شہری تھے، جن کا تعلق بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں سے تھا۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹوں کے مطابق حملہ آوروں نے فائرنگ سے قبل بس کے مسافروں کے شناختی کارڈ بھی چیک کیے تھے۔ پھر 16 افراد کو بس سے اتارا گیا، جن میں سے 14 مارے گئے۔
ٹوئٹر پر اس بارے میں پوسٹ کیے جانے والے پیغامات میں ایسی تصویریں بھی شامل ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آوروں نے مقتولین کو قتل کرنے سے قبل بس سے اتار کر ان کے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ دیے اور انہیں قطاروں میں کھڑا کر دیا تھا۔