تحریر : رائو عمران سلیمان بلوچستان میں 2013 کے الیکشن میں امن وامان کی صورتحال خاصی خراب تھی خاص کراس علاقے میں جہاں سے موجودہ چیف منسٹرعبدالقدوس بزنجو نے الیکشن لڑا، اسی وجہ سے یہاں کے بہت سے امیداواروں کی جیت صرف ایک سے ڈیڈھ ہزار ووٹوں سے ممکن ہوئی کیونکہ ان حساس علاقوں میں ووٹ ڈالنا ہی بہت بڑی بات تھی ،موجودہ چیف منسٹر عبدالقدوس بزنجو مسلم لیگ نواز میں رہتے توشاید نوازشریف کے لیے یہ معاملہ اس قدر اہم نہ رہتا کہ انہوںنے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کتنے ووٹ حاصل کیئے ہیں،لیکن اب جب کہ نوازشریف صاحب سمجھ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی میں اندرونی طور پر ایک بغاوت زور پکڑ رہی ہے جس کے بعد خاص طور پر بلوچستان میں ان کی جماعت پارہ پارہ ہوچکی ہے ،تب نوازشریف صاحب کونئے چیف منسٹر صاحب کے ووٹوں کا خیال آیا ہے کہ وہ صرف پانچ سو ووٹ لیکر منتخب کس طرح ہوگئے ؟۔میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی بات اصولی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی طرف سے اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے کی طرف لیکر چلنے کاایک طریقہ کار ہے مگر اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن ایک بات ثابت ہوچکی ہے کہ نوازشریف کے لیے اگر کوئی پارلیمنٹیرین ان کی منشاء کے مطابق چلتا رہے تووہ قابل قبول ،لیکن اگر وہ کسی وجہ سے اپنی خودمختاری کا اظہار کرے توپھر نوازشریف کو ہر سو اپنے خلاف سازشیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
لہذا چیف منسٹر بلوچستان کے خلاف خاموشی سے مہم چلانیو الے میاں نوازشریف کو اب اس معاملے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا انہیں اپنی کوتاں پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی یقیناً اس معاملے میں اسٹیبشلمنٹ کا عمل دخل ہوسکتاہے مگریہ ہی اسٹیبلشمنٹ اگرانکا بندہ چیف منسٹر لگانے میں مدد کرتی تو ان کے منہ سے آوازبھی نہ نکلتی ماسوائے اس جملے کے کہ ہم نے جمہوریت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کا منہ بند کردیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں فوج اور خفیہ ادارے بہت زیادہ خود مختار ہیں،ماضی میں بھی بلوچستان کی حکومت کی وجہ سے ملک کے تمام صوبوں کی سیاست پر اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ فی الحال اس وقت بلوچستان کے نئے چیف منسٹر اپنی خود مختار حیثیت کے ساتھ وہاں کی حکومت چلارہے ہیں اب ان کی توجہ اس بات پر ہے کہ نہیں کہ بلوچستان کی بہتر ی کے لیے کام کیا جائے کہ نہیں ؟یہ ایک الگ ایشو ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے کہ نہیں مگر اس سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتیں حقیقت کے طورپر موجود ہی نہیں ہیںبلکہ وہاں سیاسی جماعتیں بطور پلیٹ فارم کے ہی استعمال ہوتی ہیں کیونکہ بلوچستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں سے زیادہ سیاسی شخصیات زیادہ اہم ہوتی ہیں یا پھر وہاں کے متحرک قبائلی سردار ہوتے ہیں جو کہ درحقیقت اپنی زاتی حیثیت میں منتخب ہوتے ہیں ایسے میں نوازشریف یہ کہے کہ بلوچستان کی سیاست میں سانس ہی ان کی وجہ سے لیا جاسکتاہے تو یہ ان کی خام خیالی سے زیادہ نہیں ہوسکتا،کیونکہ وہاں کے منتخب لوگ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ہی کسی نہ کسی پارٹی کا لیبل لگالیتے ہیںلیکن حقیقت میں وہاں ووٹ سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ اہم شخصیت یا قبائلی سردار کے نام پر ہی پڑتا ہے۔
نواز شریف کے لیبل پرچلنے والے سابق چیف منسٹرنے وہاں سے منتخب ہوکر بلوچستان کو اپنی زاتی ملکیت سمجھناشروع کردیا تھاانہوںنے بلوچستان کے وسائل اور خزانے کو زاتی ضروریات اور من پسند لوگوں پر خرچ کرنا شروع کردیا تھا اور بہت سے سیاسی جماعتوں کے اراکین کو نظر اندازکرنا شروع کردیا تھاجس کی وجہ سے ان کو شدید مخالفت کے باعث اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا میں سمجھتا ہوں کہ اگر انصاف اور برابری کے ساتھ باغی اراکین کو ساتھ لیکر چلا جاتا تو نوازلیگ کا فارغ ہونے والا چیف منسٹربلوچستان نواب ثناء اللہ زہر ی کچھ اور وقت بھی نکال سکتا تھا فی الحال میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف صاحب کوبلوچستان کے نئے چیف منسٹر کی کامیابی پر طعنہ کشی کرنے سے پہلے اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ انہوںنے خود بھی ایسے لوگو ں کی سرپرستی کی ہے جنھیں غالباً 500ووٹ تو دور کی بات انہیں اپنے حلقے سے 250ووٹ ملنا بھی مشکل ہے ،ماشااللہ اس سلسلے میں ہمارے صدر مملکت کی مثال دی جاسکتی ہے جنھیں صدر بننے کے بعد بھی ان کی پارٹی سے پزیرائی نہ مل سکی ہے اس کے باوجود کے نوازشریف نے ممنون حسین صاحب کو اس ملک کا صدر بنارکھاہے ان کی جماعت کے بے شمار سیاستدان انہیں کسی بھی حال میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ہاں یہ او ر بات ہے کہ ان کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ کسی اور کو ان کی جگہ بٹھاسکیں میں ایک چھوٹی سے مثال صدر مملکت کی یہاں دینا ضروری سمجھتا ہوں میرے ایک زرائع کے مطابق ایک واقعہ درج کرتا چلو جسے پڑھ کر لوگوں کی معلومات میں یقینا اضافہ ہوگا اور حکومت کے بھی کان کھڑے ہونگے کہ مجھ تک یہ اندر کی بات آخر پہنچی کس طرح سے ہے صدر مملکت کے لیے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کے سمدھی وزیرخزانہ اسحق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جن کا مقصد ایک ایسا صدرپاکستان تلاش کرنا تھا جو شریف خاندان کی مٹھی میں رہے اس کمیٹی کے سامنے جو نام زیر غور تھے ان میں سرتاج عزیز ،اقبال ظفرجھگڑا،راجہ ظفرالحق اور سردارمہتاب عباسی کے نام زیر غور تھے جس روز کمیٹی نے میاں صاحب کی سربراہی میںان میں سے ایک نام صدر مملکت کے لیے دینا تھااس روز جو نام قوم کے سامنے پیش کیا جانا تھا اسے بہت سے میڈیا چینل کے اینکرپرسن نے پہلے ہی بہت حد تک اچھا ل رکھا تھا،مگرکمیٹی سمیت ان کی جماعت کے بہت سے مہاتیروں کو اس وقت زور کا جھٹکا لگاکیونکہ جو نام نوازشریف نے اچانک لیاوہ نام تھا ممنون حسین صاحب کا تھا۔
کیونکہ زرائع کے مطابق کمیٹی نے متفقہ طور پر سرتاج عزیز کا نام فائنل کیا تھا مگر میاں صاحب نے اس اجلاس میں خاموشی سے بلائے گئے ممنون حسین کے سامنے کچھ اس طرح سے لب کشائی کی کہ میں بہت مشکور ہوں کہ کمیٹی نے ممنون حسین کا نام دیا ہے جو کہ نہایت ہی قابل تحسین فیصلہ ہے ،کمیٹی کے ارکین سمیت تقریباً ہر آدمی ہی میاں نوازشریف کے اچانک اس فیصلے پر ہکا بکا تھا ایسے میں ممنون حسین نہایت ہی پریشانی اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میںدکھائی دیئے، جو اپنی نشست سے اٹھ کر کمیٹی کے ارکین اور اسحق ڈار کے پاس شکریہ اداکرنے کے لیے گئے تو اسحاق ڈار نے ان سے فرمایا کہ وہ ہمارا نہیں بلکہ نوازشریف کا شکریہ اداکریں جنھوں نے آپ کو صدر مملکت بنادیا ہے ہماری کمیٹی کے اجلاسوں میں تو آپ کا زکر تک نہیں ہواہے، خیر میرا یہ سب لکھنے کا مقصدصدر مملکت صاحب یا کسی اور کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بلکہ نوازشریف کے ان فیصلوں کی طرف اشارہ کرنا تھاتھا جو انہوں نے جانے انجانے میں کیئے اوریہاں نوازشریف کی جانب سے بلوچستان کے چیف منسٹر کی کامیابی پر پانچ سو ووٹوں کے بیان کے بعد یہ واقعہ لکھنا ضروری ہوگیا تھا۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔