تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر ملکی تاریخ کی سب سے بڑی رقم جس شخص کے صوفوںسے ،بستروں سے ،چھتوں سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے برآمدہوئی جس رقم کو گنتے گنتے دن کا اجالا رات کی تاریکی کے لبادے میں چھپ گیا اتنی بڑی کرپشن کرنے والا شخص جس ادارے نے رہا کیا اس ادارے کو سب نیب کے خوبصورت نام سے جانتے ہیں ۔انگریزی میں تو شائید اس ادارے کو نیشنل اکائونٹی بلٹی بیوروکہتے ہیں مگر آج کے اس فیصلے سے جو بات میرے ذہن میں آرہی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ اس ادارے کو اردو میں نیب لکھا جاتا ہے یعنی (ن ،ی ،ب )اب اس کو کھول کے دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے تو جناب ن سے نہیں ،ی سے یاد ،اور ب سے بربادی پورا نام کچھ اس طرح ہو گا نہیں یاد بربادی آف پاکستان اسی لئے تو رئیسانی کو پلی بار گیننگ کر کے رہائی کا پروانہ تھما دیا گیا وہ بھی دو ارب سے زائد رقم انسٹالمنٹ میں جمع کروانے کی شرط پر بذریعہ چیک ۔ وہ رئیس زادہ رئیسانی رئیسانہ طمطراق سیدو ارب سے زائد کی رقم بذریعہ نیب حکومت پاکستان کو ادا کر دے گا ۔اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس کے اکائونٹ میں رقم ہے تو چیک بھر کے اس نے نیب حکام کے حوالے کر دیئے دوسرے یہ کہ دو ارب روپے اور جن بنگلوں کا ذکر ہے اس کرپشن کی تاریخ کے تاریک پہلو سے وہ بنگلے بحق سرکار ضبط کر لئے گئے۔
ارے معصوم پاکستانیوذرا سوچو کہ دو ارب روپے کی میگا کرپشن کے علاوہ اور ان بنگلوں کے علاوہ بھی رئیس بلوچستان مشتاق رئیسانی نے اندرون اور بیرون ممالک میں جو جائیدادیں اور اثاثہ جات بنائے ہوئے ہوں گے وہ بھی تو عوامی خون کو کشید کر کے ہی بنائے ہوئے ہوں گے نہ ؟اور ہماری نیب نہیں بلکہ نایاب سرکار نے انکا کہیں ذکر ہی نہیں کیا چاہئے تو یہ تھا کہ اتنی بڑی کرپشن کرنے والے کی مزید پوچھ گچھ ہوتی اور اس کے ساتھ اس فعل قبیح میں شامل دوسرے پردہ نشینوں کی بھی نقاب کشائی کی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ رہائی قسطوں پہ دستیاب ہے کے مصداق اسے قسط وار طریقہ کار کے مطابق چیک لے کر رہا کر دیا گیا۔
جیسے کوئی غریب آدمی ایک قسط ادا کر کے کسی دوکاندار سے پنکھا یا ٹی وی قسطوں پر حاصل کر لیتا ہے اور پھر ایک دو قسطوں کی ادائیگی کے بعد دوکاندار اس غریب آدمی کے گھر کے چکر لگا لگا کر عاجز آجاتا ہے بالآخر اسے آخری دو سے تین اقساط معاف کرنے کا پیکیج دے کر اپنی وصولی کر پاتا ہے مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے جو جتنی بڑی کرپشن کرے دونوں ہاتھوں سے جتنا چاہے لوٹے اور اگر پکڑا جائے تو پلی بارگیننگ کر کے چھوٹ جائے۔ مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کے پیکیج پر ڈیل عمل میں آئی ہے ۔صرف دو شرئط کی پابندی ان پر لاگو کر دی گئی ہے کہ وہ دس سال تک کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی دس سال تک سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں باقی جو جی میں آئے کرو موجیں کرو عیش کرو باقی ماندہ لوٹے گئے پیسے سے بنائے گئے اثاثہ جات اور کاروبار سے از سر نو مزے سے زندگی گزارو اور خوش و خرم رہو۔ ارباب عقل و دانش اب بات ہو جائے ذرا اس سودے بازی کی چھوٹی پلی کے بارے میں۔
Pakistani Currency
قارئین کرام حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں جسے ہم انگریزی میں بارگیننگ کہتے ہیں اسے اردو معنی کے پیرائے میں سودے بازی ہی تو کہتے ہیں اور پلی پل سے تھوڑی چھوٹی ہوتی ہے جس پر سے رئیسانی طرز کے رئیس بآسانی گزر کر دقوبارہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو تختہ مشق بناتے ہوئے اپنے پہلے والے ہی کرپشن کے بزنس میں بھر پور کامیاب ہو جائیں گے ۔ گزشتہ سولہ سالوں میں لگ بھگ ساڑھے پندرہ ارب کی رقم کے عوض پلی بارگیننگ کر کے لوگوں کو آزاد کیا گیا جس میں سے صرف اڑھائی ارب روپے کرپشن کے بے تاج بادشاہوں نے خیرات کی طرح حکومتی کاسے میں ڈالے اور ساڑھے بارہ ارب کی خطیر رقم دینے سے وہ لوگ مکر گئے جس میں سے ایک پائی بھی واپسی کی امید نہ ہے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا غور تو کریں کہ دو ارب روپے کی واپسی بذریعہ چیک طے پائی ہے۔
تمام چیکس نیب حکام کے حوالے تو کر دیئے گئے ہیں مگر ان چیکوں پر ناجانے کتنے درمیانی وقفے یا عرصے کی ہے اور فی چیک کتنی قسط طے پائی ہے۔ نیب وہ ادارہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ہر پاکستانی شہری کو اسکے موبائل پر ایک پیغام بھیج رہا ہے کہ Say no to cruption اس میں وہ بیچارہ غریب بھی شامل ہوتا ہے جو مزدوروں کے اڈے پر کھڑا صبح سے شام تک کام کے انتظار میں رہتا ہے جب کوئی رئیس اسے مزدوری کرنے کو بھی لینے نہیں آتا تو وہ جو سارا دن مزدور کے روپ میں مزدوری کی فکر میں اکڑ جاتا ہے شام ڈھلے اسے اپنے بچوں کے پیٹ کی فکر ستانے لگتی ہے تو بے بسی کے عالم میں وہ بے چارہ فقیر کا روپ دھار لیتا ہے اور لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے کہ آج سارا دن کوئی کام نہیں ملا میرے بچے گھر میں بھوکے میرا انتظار کر رہے ہیں۔
کوئی آٹے سبزی کے لئے میری مدد کر دو نیب حکام اس بھکاری نما مزدور کو بھی پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ سے نو ٹو کرپشن اور جو اربوں کی کرپشن کے کیسسز رنگے ہاتھوں نہیں بلکہ دھرتی اور عوام کے خون سے رنگے ہاتھوںسمیت پکڑا جائے اسے سودے بازی کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے یہ کیا معیار احتساب ہے کہ اس ملزم نہیں بلکہ مجرم کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ رقم واپس کرو اور اس کے علاوہ اب تجھ سے کوئی بھی نہیں پوچھے گا کہ تیرے ساتھ کون کون ملوث تھا یہ تو وہ رقم واپس کر رہا ہے رئیسانی جو پکڑی گئی اور جو اتنی لوٹ گھسوٹ کرتا رہا ہے وہ باقی رقم بھی اب تجھ سے کوئی نہیں پوچھے گا یہ رقم جمع کروائو آزادی پائو۔ رئیسانی جی رئیسانہ طریقہ سے نیب کی فیاضانہ مہربانی کی طفیل رہائی پائو ،کھلا ای کھائو تے ۔۔۔۔۔۔۔۔،سمجھ تو آہی گئی ہو گی؟۔
MS H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail;mhbabar4@gmail.com