بلوچستان (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر تعلیم عبد الرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ مڈل اور ہائی سکولوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بچوں کی سکول چھوڑنے کی شرح 60 فیصد سے زیادہ ہے۔
یہ بات وزیر تعلیم نے مقامی ہوٹل میں ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کی جو عالمی یوم خواندگی کی مناسبت سے منعقد ہوا۔
وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ہم تعلیم کے میدان میں دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں سکول جانے کی عمر کی تمام بچوں کی سکول میں نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ غربت کے علاوہ اس کا وسیع و عریض رقبہ بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے بلوچستان میں اب تک 12 ہزار سے زائد سکول تعمیر کیے جاسکے ہیں جن میں زیادہ تر پرائمری سکول ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں مڈل اور ہائی سکولوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بچوں میں سکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پرائمری سے مڈل کے درمیان سکول چھوڑنے کی شرح 60 فیصد سے زیادہ جبکہ مڈل سے ہائی کے درمیان 45 فیصد ہے۔ یہ شرح شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہو۔‘
بلوچستان میں سکول جانے کی عمر کے 13 لاکھ بچے سکولوں میں ہیں جبکہ 18 لاکھ سکولوں سے باہر ہیں وزیر تعلیم نے بتایا کہ بلوچستان میں پانچ ہزار پرائمری سکول ایسے ہیں جو صرف ایک کمرے اور ایک استاد پر مشتمل ہیں۔
عبد الرحیم زیارتوال نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بلوچستان میں پانچ سو ایسے ہائی سکول ہیں جن میں سائنس کی لیباریٹری نہیں ہے جبکہ پانچ سو ایسے مڈل سکول بھی ہیں جن میں سائنس کا کمرہ نہیں۔
کچھ عرصہ بیشترً الف اعلان کے زیر اہتمام ان کی تعداد کے بارے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اور سابق مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے بتایا تھا کہ ’محکمہ تعلیم کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں سکول جانے کی عمر کے 13 لاکھ بچے سکولوں میں ہیں جبکہ 18 لاکھ سکولوں سے باہر ہیں۔‘
سردار رضا محمد بڑیچ کے مطابق ’بچیوں میں یہ شرح زیادہ ہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ دو بچوں کے مقابلے میں ایک بچی سکول جاتی ہے جبکہ بچوں کے دو سکولوں میں بچیوں کا ایک سکول ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی کی ضرورت ہے لیکن گذشتہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں بلوچستان کے رواں مالی سال کے بجٹ میں کی کمی کی گئی ہے۔
گذشتہ مالی سال میں تعلیم کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ 10 ارب روپے سے زیادہ تھا مگر رواں مالی سال کے بجٹ میں اس مقصد کے لیے 6 ارب 65 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔