تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم بلوچستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے جو شروع ہی سے سیاسی بحرانوں کے ساتھ ساتھ امن و امان ،لاقانونیت اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے اس صوبہ میں سیاسی بحران اور دہشت گردی کے واقعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں گزشتہ دنوں نواب ثناء اللہ زہری نے اپنی وزارت اعلی سے جیسے ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیاتو کوئٹہ میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوگیا بلوچستان اسمبلی کے قریب زرغون روڈ پر خودکش حملے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد شہید، 25 زخمی، خود کش حملہ آور نے موٹر سائیکل بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک سے ٹکرائی، مسافر بس سمیت کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا،دھماکے کی شدت سے صوبائی اسمبلی سمیت ارد گرد کی عمارتیں لرز اٹھیں ،نوجنوری کی شام کوئٹہ اس وقت دھماکے سے لرز اٹھا جب صوبائی اسمبلی کے ارکان وزیر اعلیٰ کے استعفے کے بعد اسمبلی اجلاس ملتوی ہونے کے بعد گھروں کو واپس جا رہے تھے اس دوران اسمبلی کی عمارت سے 300میٹر کے فاصلے پر زرغون روڈ پر جی پی او چوک میں زوردار دھماکہ ہوا جس سے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیاخود کش دھماکے میں 5پولیس اہلکار موقع پر شہید جبکہ 25سے زائد زخمی ہوئے ،زخمیوں میں 9پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جنھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں مزید 3پولیس اہلکار اور دو افراد دم توڑ گئے اور ہلاکتوں کی تعداد 10 ہو گئی۔
دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ارد گرد دفاتر اور پریس کلب کوئٹہ کے عمارتیں لرز اٹھے اور عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے دھماکے کی زد میں آکر ایک مسافر بس سمیت کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچازخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں واقعہ کے فوری بعد پو لیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں ۔وی آئی پی موومنٹ کے باعث متعدد سڑکیں اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہی بند کر دی گئی تھیں اور 6 ہزار سکیورٹی اہلکار شہر میں سکیورٹی امور سرانجام دے رہے تھے سکیورٹی فورسز کے ٹرک میں 25کے قریب اہلکار سوار تھے جو اسمبلی کی سکیورٹی پر تعینات تھے اجلاس ختم ہونے کے بعد اہلکار ٹرک میں راستے کی سکیورٹی پر مامور تھے کہ دہشتگردی کا نشانہ بن گئے اور شہر بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکا خودکش تھا جس کے دوران موٹر سائیکل سوار حملہ آور نے اپنی موٹر موٹر سائیکل پولیس ٹرک سے ٹکرا دی۔تحقیقات کے مطابق بظاہر حملہ آور بلوچستان اسمبلی کی جانب بڑھ رہا تھا تاہم سیکیورٹی سخت ہونے کے باعث اسے جہاں موقع ملا اس نے وہیں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
اب ہم بلوچستان میں سیاسی بحران کی جان بڑھتے ہیں 1970 میں بلوچستان ون یونٹ کے خاتمے کے بعد بحیثیت صوبہ وجود میں آیا اور 1972 میں پہلی صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی اور اس وقت سے لے کر آج تک تین بار وزرائے اعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی ہے۔ان وزرائے اعلی میں میر تاج محمد جمالی مرحوم، سردار اختر جان مینگل اور موجودہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثنا اللہ خان زہری شامل ہیں۔میر تاج محمدجمالی اور سردار اختر جان مینگل کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں جمع ہوئی تو وہ فوری طور پر وزارت اعلی مستعفی ہوگئے۔سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد 14 اراکین کے دستخطوں کے ساتھ دو جنوری کو اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروائی گئی تھی اور9جنوری کوووٹنگ ہونا تھی ۔اس تحریک عدم اعتماد پر ایک آزاد رکن اسمبلی کے علاوہ جن جماعتوں کے اراکین کے دستخط تھے ان میں ق لیگ، جمعیت العلمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور نیشنل پارٹی شامل ہیں۔
اگرچہ تحریک عدم اعتماد پر وزیر اعلی کی اپنی جماعت اور مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت ن لیگ کے اراکین کے دستخط نہیں تھے تاہم تحریک جمع ہونے کے بعد وزیراعلی زہری کی کابینہ کے چھ ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔کابینہ چھوڑنے والوں میں سے پانچ کا تعلق ن لیگ جبکہ ایک کا تعلق ق لیگ سے تھانواب ثنا اللہ زہری کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی آٹھ جنوری کو کوئٹہ آئے پہنچے تاہم ن لیگ کے منحرف اراکین نے ان کی سربراہی میں ہونے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی موجودہ سیاسی بحران کا ڈراپ سین تحریک عدم اعتماد سے کچھ دیر قبل وزیر اعلیٰ بلوچستان ی کے استعفے سے ہوا ہے ، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے ۔ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کیلئے طلب کیا اجلاس غیر موثر ہو گیا جبکہ صوبائی کابینہ بھی خود بخود تحلیل ہو گئی ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی شکل میں اچانک یہ بحران کیوں پیدا ہوا حزب اختلاف کی بجائے خود ان کی اپنی پارٹی ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین اس میں کیوں پیش پیش رہے۔ اس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ثنا اللہ زہری کے مخالفین اس کا ذمہ دار خود ان کو ٹھہراتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں سب سے زیادہ اہمیت مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دی۔پشتونخوا میپ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل حل ہوتے گئے جبکہ ن لیگ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل بڑھتے گئے بلوچستان میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے علاوہ بعض دیگر اہم محکمے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس تھے۔
منحرف اراکین کے مطابق حکومت سے سیاسی حوالے سے سب سے زیادہ فوائد پشتونخوا میپ نے اٹھائے اور ترقیاتی منصوبوں کا ایک بڑا حصہ اپنی پارٹی کے اراکین کے حلقوں میں منتقل کیا۔اس کے علاوہ ثنا اللہ زہری پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ کئی منافع بخش محکمے اپنے پاس رکھنے کے علاوہ وہ زیادہ تر وہ بلوچستان سے باہر رہے۔سلطنت عباسیہ کے سربراہ شاہد خان عباسی بھی اپنے وزیر اعلی کو بچانے کے لئے کوئٹہ آئے منحرفین سے رابطے کرنا چاہے لیکن باغیوں نے ان سے ملنا مناسب نہ سمجھا فون تک سننا گوارہ نہ کیا گیا وزیر اعظم کی صدارت میں گورنر ہاس میں جو اجلاس ہوا اس میں ن لیگ کے 21 اراکین میں سے وزیر اعلی سمیت صرف سات اراکین شریک ہوئے جبکہ 14اراکین غائب تھے۔اب نئے قائد ایوان کے الیکشن کیلئے از سر نو اجلاس طلب کیا جائے گا۔اس سے قبل الیکشن کا شیڈول جاری ہوگا۔الیکشن کے بعد نیا وزیر علیٰ اپنے کا بینہ خود چنے گا۔صوبے کا اگلا وزیر اعلیٰ کس سیاسی جماعت سے ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگاوزارت اعلی کی دوڑ میں سرفراز بگٹی، صالح محمد بھوتانی اور جان محمد جمالی شامل ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی کو اسمبلی کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہے۔