بلوچستان کے سرکاری تعلیمی ادارے تباہ اور کالجز ویرانی کے مناظر پیش کر رہے ہیں: صہیب الدین

Lahore

Lahore

لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل صہیب الدین کاکا خیل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے سرکاری تعلیمی ادارے تباہ اور کالجز ویرانی کے مناظر پیش کر رہے ہیں، جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے جدید تعلیم ضروری مگر یہاں کے تعلیمی اداروں میں سائنس لیبارٹریز ہیں نہ ہی کمپیوٹر لیب، تعلیمی ادارے ٹھیکیداری نظام کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔

بلوچ عوام کی محرومیوں کا ازالہ انہیں تعلیمی سہولیات دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لورالائی، تربت اور خضدار میں ٹیلنٹ ایوارڈ شوز سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ پورے صوبے میں ایک ٹیکنیکل کالج ہے اور وہ بھی ہڑپہ کے کھنڈرات کی طرح ویران ہے۔ خواتین کی واحد یونیورسٹی کو بھی کرپشن نے تباہ کر دیا ہے۔

میڈیکل کی سہولیات کا صوبے بھر میں فقدان ہے ۔ خضدار، لورالائی اور تربت میں تین میڈیکل کالجز کے قیام کا اعلان ابھی تک فائلوں اور بیانات کی حد تک محدود ہے۔ زرعی یونیورسٹی کی تعمیر کے لئے بجٹ میں ایک ارب روپے مختص ہونے کے باوجود یونیورسٹی کا قیام کھٹائی میں ہے۔صوبے کے بجٹ میں تعلیم کیلئے 38 ارب 36 کروڑ روپے مختص مگر سارا بجٹ کرپشن اور ٹھیکداری نظام کی نظر ہو گیا ہے۔صہیب الدین کاکا خیل کا مزید کہنا تھا کہ بجٹ میں پندرہ نئے کالجز کے قیام کا اعلان محض ہوائی اعلان ہی ثابت ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں صوبے کے طلبا کے لئے کوئی سہولتیں دستیاب نہیں۔بلوچستان کے طلبا معیاری تعلیم کے حصول کے لئے دیگر صوبوں میں جانے پر مجبور ہیں۔ محکمہ تعلیم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں اور کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھا رہی ہے۔اقربا پروری، رشوت اور سیاسی بنیادوں پر اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں جو کہ ساری توانائیاں سیاسی وفاداریاں نبھانے میں صرف کرتے ہیں۔

سیکرٹری جنرل جمعیت کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں تقریبا 2.3 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور جو کالج اورسکول موجود ہیں اْن میں بھی بنیادی ڈھانچے اور ضروری سہولیات کا مکمل فقدان ہے۔تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان پر ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا اور ہمیشہ کی طرح یہ بھی صرف” شو بازی” ہی ثابت ہورہی ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کی ناکامی کی متعدد وجوہات تعلیمی ایمر جنسی کے نفاذ کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی۔ حکومت کی طرف سے اْن محکموں کی نشان دہی نہیں کی گئی جن پر اس ایمرجنسی کا اطلاق ہو گااور نہ ہی تعلیمی اصلاحات کے خدوخال کی نشاندہی بھی نہیں کی گئی۔