بکاؤ مال

Democracy

Democracy

تحریر:پروفیسر رفعت مظہر

ہارس ٹریڈنگ توہماری جمہوریت کا جزوِ لاینفک ہے۔ کیا مزہ ایسی سیاست میںجس میںکوئی ”لوٹا”ہو نہ ”بکاؤمال”۔ساری رونقیں تو انہی کے دَم قدم سے ہیں ،اگریہ نہ ہوں توہماری سیاست پر جمود طاری ہو جائے اِس لیے کوئی کچھ بھی کہے ،ہم توہارس ٹریڈنگ کے حق میں ہی ہیں ۔حیرت ہے کہ جمہوریت کی روحِ رواں ”ہارس ٹریڈنگ”کو رواج دینے والے ہی آج اِس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شاید وہ 1989ء کا وہ دَور بھول چکے جب ہارس ٹریڈنگ کا شور اُٹھا،م یاں صاحب اپنے اراکین کو چھانگا مانگا لے گئے اور بی بی شہید اپنے اراکین کو جہازوں میں بھرکے سوات جاپہنچیں۔

تبھی ہارس ٹریڈنگ اورلوٹا کریسی کا رواج پڑاجو آج تک جاری وساری ہے ۔نوازلیگ اور تحریکِ انصاف نے اِس خریدوفروخت پر بہت شور مچایا اور وزیرِاعظم صاحب نے تو پارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بھی بلالیا لیکن ”کَکھ” فائدہ نہ ہوا۔ پیپلزپارٹی اورجمعیت علمائے اسلام نے تو ”ٹَکاسا”جواب دے دیااور سوائے تحریکِ انصاف، جماعت اسلامی اورایم کیوایم کے کسی نے کھُل کر 22 ویں ترمیم کی حمایت بھی نہیں کی۔ نواز لیگ بلوچستان میں”وَخت” میں پڑی ہوئی ہے۔ بلوچستان کے نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی کوغصّہ یہ ہے

وزیرِاعظم صاحب نے اکثریت رکھنے کے باوجود بلوچستان کی حکومت ڈاکٹر عبد المالک کے سپرد کیوں کی ۔اب وہ اپنے ووٹ بیچ کرمیاں صاحب کو سبق سکھانے کی تگ ودَو میں ہیں ۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال ک اسامنا خیبرپختونخوا میں ہمارے کپتان صاحب کوہے ۔اُنہوں نے جذبات میں آکر اسمبلیوں سے استعفے تودے دیئے لیکن یہ سوچا تک نہیں کہ اِس کاردِعمل بھی آسکتاہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میںتحریکِ انصاف کے بہت سے گھوڑے اِدھر اُدھر مُنہ مارتے پھِر رہے ہیں اور وزیرِاعلیٰ بے بَس۔جماعت اسلامی تحریکِ انصاف کے اتحاد سے خیبرپختونخوا میں اپنا ایک سینیٹر منتخب کرواسکتی ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ کی صورت میں نتیجہ کیا نکلتا ہے ،اللہ جانے یا”گھوڑے۔

اُدھر شاطرانہ چالیں چلنے کے ماہر محترم آصف زرداری اِس ساری صورتِ حال کا فائدہ اٹھانے کی تگ ودَو میں ہیں۔ اُن کے 40 میںسے 21 سینیٹر فارغ ہونے کے باوجود بھی وہ سینٹ کی چیئرمینی چاہتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کوسندھ سے توآسانی سے 7 سیٹیںمِل جائیںگی لیکن مرکز سمیت باقی کسی بھی صوبے میںوہ اپناکوئی بھی سینیٹر منتخب کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگر وہ کسی نہ کسی طریقے سے مزید تین چار سینیٹر منتخب کروانے میںکامیاب ہوجاتی ہے توپھر باقی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مِل کروہ سینٹ کی چیئرمینی کی دَوڑ میں شامل ہوسکتی ہے اِس لیے اُسے ہارس ٹریڈنگ ہی راس ہے کیونکہ اِس کے بغیرتو سینٹ کی چیئرمینی محض خواب ہی رہے گی۔

PPP

PPP

اب ہمارے ہی ووٹوںسے منتخب ہونے والے رہنماؤں کی منڈی سج چکی ۔ہرضمیرفروش نے اپنی قیمت اپنی پیشانی پہ لکھ لی ۔انسانوں کی اِس منڈی میںسب سے زیادہ قیمت خیبرپختونخوا ،بلوچستان اور فاٹا کے ”گھوڑوں”کی ہے کیونکہ پنجاب میں نوازلیگ کو قطعی اکثریت حاصل ہے اورسندھ میںپیپلزپارٹی اورایم کیوایم کا الحاق ہونے کے بعد سندھ کی صورتِ حال بھی پنجاب جیسی ہی ہے۔سب سے زیادہ بولی فاٹاکے گھوڑوںکی لَگ رہی ہے کیونکہ وہا ںصرف تین ووٹوں سے ایک سینیٹر منتخب ہو سکتا ہے شنید ہے کہ یہ بولی چالیس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے ۔بلوچستان میں دَس ووٹوںسے ایک سینیٹر منتخب ہوگا اور خیبرپختونخوا میں 14 ووٹوں سے ،اِس لیے ارب پتی انہی علاقوں سے ضمیر فروشوں کی تلاش میں ہیں۔

ہمارے کپتان صاحب نے توبہت پہلے سے ہارس ٹریڈنگ کاشور مچاناشروع کردیا تھا لیکن کسی کے کان پرجوں تک نہیںرینگی البتہ جب محترم آصف زرداری نے چومکھی چال چلناشروع کی تو نواز لیگ کوبھی ہوش آیااور وزیرِاعظم صاحب نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے ٹھَک سے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی جس میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا ”ووٹ خریدنا ضمیرخریدنے کے مترادف ہے ۔سب کومِل کر سینٹ کے تقدس میںاضافہ کرنا ہوگا اور ضمیر فروشی کے اِس کاروبار کو روکنا ہو گا کیونکہ پیسے دے کرووٹ خریدنا سب کے لیے بدنامی کاباعث ہے ۔اِس اے پی سی کا نتیجہ یہ نکلا کہ حریف ،حلیف بن گئے اور حلیف حریف۔

پیپلزپارٹی جوجمہوریت کی بقاکی خاطر نوازلیگ کے کندھے سے کندھا ملا کرکھڑی تھی اُس نے 22 ویں ترمیم کے حق میںووٹ دینے سے صاف انکار کر دیا اور مولانا فضل الرحمٰن جو نوازلیگ کی حکومت کاحصّہ ہیں،نے فرمادیا کہ وہ 21 ویں ترمیم کے ڈَسے ہوئے ہیں اور مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیںڈسا جاتا اِس لیے وہ بھی 22 ویں ترمیم کے حق میںووٹ نہیں دیں گے ۔مرنجاں مرنج سیّد خورشی دشاہ نے کہا ”ہم جان بوجھ کرحکومت کو ”ٹَف ٹائم”نہیں دیتے لیکن ارکانِ پارلیمنٹ پرچور اورکرپٹ کاالزام لگانامناسب نہیں ”۔دوسری طرف تحریکِ انصاف ڈَٹ کرحکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اوریہ عندیہ بھی دے دیاکہ اگر 22 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ میں بھی آناپڑا تو آجائیں گے ۔ایم کیوایم نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔

موجودہ منظرنامے کو مدّ نظررکھتے ہوئے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ ہارس ٹریڈنگ کی اصل قصوروار سیاسی جماعتیں ہیں ،گھوڑے نہیں۔ وہ سیاسی جماعت جوایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکتی ،اُس نے بھی تین ،تین اُمیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں ۔پیپلزپارٹی پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے ایک سینیٹربھی منتخب نہیں کرواسکتی لیکن اُس نے ہرجگہ اپنے امیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں۔اُس کے خیبرپختونخوا میں صرف پانچ اراکینِ اسمبلی ہیں جبکہ ایک سینیٹرکو منتخب کروانے کے لیے 17 اراکینِ اسمبلی کی ضرورت ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اُس نے وہاںسے بھی تین اُمیدوار کھڑے کیے ہیں ۔پیپلزپارٹی ،اے این پی اورعوامی وطن پارٹی ،تینوں مِل کر خیبرپختونخوا سے بمشکل ایک سینیٹر منتخب کروا سکتی ہیں جبکہ اِن تینوں کے تین ،تین اُمیدوار میدان میں ہیں اور اِن سبھی کی رال تحریکِ انصاف کے اراکین پرٹپک رہی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ کپتان صاحب ہارس ٹریڈنگ کا سب سے زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ آفتاب شیرپاؤ صاحب نے سینیٹر وقار اورگلزار کے خاندان کے عمار کوٹکٹ دے کرمیدان میں اتارا ہے ۔آفتاب شیرپاؤ کے پاس صرف 9 ووٹ ہیں باقی 5 ووٹ یہ ارب پتی خاندان خریدنے کی تگ ودَو میںہے مولانا فضل الرحمٰن کے پاس 17 ووٹ ہیں اوراگر کوئی ووٹ کھسک نہ لیا تووہ اپنے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن کو تو سینیٹر منتخب کرواہی لیں گے لیکن مولانا بھی دوسینیٹرز کے خواہش مند ہیں۔ وزیرِاعظم صاحب نے بالکل بجا کہا کہ ووٹ خریدنا ضمیر خریدنے کے مترادف ہے لیکن جب سیاسی جماعتیں ہی اِس ضمیر فروشی کے دھندے میں ملوث ہوں تو پھر کیا آمریت جمہوریت سے بہتر نہیں؟۔ اگر نہیں توپھر ہارس ٹریڈنگ میں حرج ہی کیا ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر:پروفیسر رفعت مظہر