بنگلہ دیش (جیوڈیسک) امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کو بنگلہ دیش کا دورہ کیا، جہاں اُنھوں نے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے ملاقات کے بعد کہا کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے “دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں (امریکہ کے ساتھ) قریبی تعاون کی خواہش” کا اظہار کیا ہے۔
جان کیری نے پیر کو اعلان کیا کہ ڈھاکہ اور واشنگٹن نے “اضافی اقدامات پر اتفاق کیا ہے جس کے تحت ہمارے انٹلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس (تعاون) کو مزید فروغ دیں گے”۔
کیری نے ڈھاکا میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عراق و شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش “دنیا بھر میں تقریباً آٹھ تنظیموں کے ساتھ راوبط میں ہے اور ان میں سے ایک جنوبی ایشیا میں ہے”۔
تاہم انھوں نے اس تنظیم کا نام نہیں بتایا ہے۔ کیری نے مزید کہا کہ عراق و شام میں سرگرم انتہا پسندوں کے بنگلہ دیش میں کچھ کارندوں کے ساتھ روابط ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم حسینہ واجد سمیت بنگلہ دیش کے جن حکام سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں وہ “اس کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں رکھتے ہیں۔”
کئی ایک مبصرین کی طرف سے شیخ حسینہ واجد کی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کا تعلق کو ملک ہی میں موجود تنظیموں سے ثابت کر کے اس معاملے کو نظر انداز کرتی ہیں کہ یہاں ’داعش‘ کا کوئی وجود ہے۔
جان کیری سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ “میرا نہیں خیال کہ بنگلہ دیش کی حکومت اس معاملے کو نظر انداز کر رہی ہے۔” انھوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کے اندر دہشت گردی پر بیرونی اثرات کے بارے میں ان کی وزیراعظم سے “بہت کھل کر گفتگو ہوئی ہے”۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بنگلہ کے وزیر خارجہ عبدالحسن محمود علی سے بھی ملاقات ہوئی اور بات چیت کا محور انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون تھا۔
کیری نے یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک ریستوران پر ہوئے مہلک حملے 20 افراد کی ہلاکت کے واقعہ پر ایک بار پھر تعزیت کا اظہار بھی کیا، مارے جانے والوں میں 17 غیر ملکی شہری بھی شامل ہیں اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
ڈھاکا میں ایڈورڈ ایم کینیڈی سینڑ میں خطاب کے دوران جان کیری نے کہا کہ اس حملے کا مقصد ” واضح طور پر بنگلہ دیش کے اندر تفریق پیدا کرنا تھا”۔