بنگلہ دیش میں اجکل سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی پاکستان سے الفت و عقیدت رکھنے والوں اور مکتی باہنی کے شرپسندوں کا قلع قمع کرنے کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے والوں پر وزیراعظم حسینہ واجد کی سرکار نے قیامت صغری مسلط کر رکھی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے سینے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے انکے خون میں جماعت اسلامی اور سقوط ڈھاکہ کے وقت دشمنان پاکستان و اسلام کے خلاف پنجہ زن رہنے والے سول مجاہدین کے خلاف نفرت بغض و عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ڈھاکہ کی عدالتوں میں کٹھ پتلی ججز تعینات ہیں جنکی ڈور حسینہ واجد کے ہاتھ میں ہے۔ وہاں انصاف کا خون ہورہا ہے۔ البدر اور جماعت اسلامی کے وابستگان کو قید و بند کی صعوبتوں پھانسیوں اور تشدد پر مبنی سنگین سے جابرانہ قسم کی سزائیں دی جارہی ہیں۔ حال ہی میں انصاف انسانیت اور عدلیہ نام کی ایک قلمی جریدے نے لاکھوں دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
Bangladesh
جریدے میں مظلومین پر ڈھائے جانیوالے مظالم کو قومی اور انٹرنیشنل لیول پر اجاگر کرنے کی سعی کی ہے تاکہ امت مسلمہ اور نام نہاد جمہور پرور مغربی حکومتوں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہم نے نہ تو محبان پاکستان کی داد رسی کی خاطر حکومتی سطح پر کوئی پروٹسٹ کیا اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں نے حسینہ واجد اور اسکے خوشہ چین ججز کا ضمیر جگانے کی زحمت کی۔ شکسپر نے کہا تھا بہترین انکھ وہ ہے جو سچائی کو پرکھ لے تاہم بنگلہ دیشی عدلیہ کے ججز اندھے اور بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ بصیرت اور بصارت کا چولی دامن کا ساتھ ہے مگر بنگالی ججز کے عقل و خرد دونوں بصیرت و بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہیں نہ تو حق و سچ کا فرق دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ سچائی تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت کے کار پردازان کا رول ادا کرنے والے ججز ائین و قانون کی دھجیاں بکھیر کر معصوم لوگوں کو انسانیت سوز سزائیں دینے میں مشغول ہیں۔
JI
پتہ نہیں ایک ایسے نازک موقع پر جب بے گناہوں کو زندانوں میں ڈالہ جارہا ہو جب قانون کے رکھوالے ہی ائین شکنی پر اتر ائیں تو امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کی خاموشی لرزہ خیز ہے۔ کیا مسلم حکمرانوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ برما سے لیکر کشمیر چچنیا سے لیکر فلسطین تک مسلمانوں پر روا رکھے جانیوالے مظالم کے خلاف صدائے باز گشت بلند کر سکیں۔ انکی مدد کی خاطر سربکف ہو جائیں۔ جب ایک برادر ملک میں جمہوریت کے نام پر معصوم افراد پر ڈکٹیٹرشپ کی ظلمت مسلط کردی جائے۔ جب انصاف کے دیوانے فرزانے بنکر اپنے ہم وطنوں ہم مذہب مسلمان بھائیوں پر جبریت کی بھرمار کئے ہوئے ہوں تو امہ کسطرح کس منہ سے فلسطین برما میں مسلمانوں کے قتل و عام پر لب کشائی کر سکتی ہے؟ بنگلہ دیش میں شائع ہونے والے جریدے انسانیت کے قتل میں نواز حکومت کی خارجہ پالیسی پر اپوزیشن جماعتوں کے تبصرے اور تجزئیے شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے منور حسن اور لیاقت بلوچ نے حکومت پاکستان کو اڑے ہاتھوں لیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے وزارت خارجہ کے اس بیان کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے کو اڑے ہاتھوں لیا۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت حسینہ واجد کے جبر واستبداد اور ججز کی انصاف کشی کے خلاف عالمی رائے عامہ میں بیداری پیدا کی جائے لیاقت بلوچ نے نواز برادران سے مطالبہ کیا کہ ایک طرف مسلم لیگ ن کی حکومت سفارت کاری کے زریعے اپنا کردار ادا کرے تو دوسری طرف پاک گورنمنٹ کو عالمی سطح پر مربوط و منظم احتجاج کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ واقعی خواب خرگوش کے مزے ہانک رہی ہے۔ امام خانہ کعبہ محترم عبدالرحمن سدیسی معصومیت کے قاتلوں پر پھٹ پڑے۔ امام کعبہ فرماتے ہیں کہ جہاں بنگالی حکومت کی پنچ پیاری عدلیہ نے بیگناہ لوگوں پر جو مقدمات تھوپ دئیے وہ درست نہیں تو وہاں مسلمانوں اور ان سے منسلک مسلم ارگنائزیشن او ائی سی وغیرہ فعال کردار ادا کریں۔
امام کعبہ کا بیان اور پندو نصائح لائق داد تحسین ہے۔ خانہ کعبہ کے اماموں سجادہ نشینوں اور خطہ عرب کے شہنشاہوں سے پوچھا جانا چاہیے کیا وہ امت مسلمہ کے مصائب و الام پر ستم گروں کے سامنے انکھوں میں انکھیں ڈال کر مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے اگر میں امت مسلمہ کی ابتلاوں اور بیماریوں کی وجہ بتاوں تو بیماریاں ہمارے گناہوں جبکہ ازمائشیں اور زوال فرامین خدا سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اس امر میں کسی شک و شبے کا دور دور تک کوئی شائبہ نہیں کیونکہ امت مسلمہ اور مسلم حکمران قادر مطلق کی بجائے یہو و ہنود کے سالار اعظم امریکی صدر کے پٹھو بن چکے ہیں۔ ہمارے اعمال رب العالمین کی نصرت و فتح سے تہی داماں ہیں۔ شام میں خانہ جنگی جاری ہے مسلمان امریکی ایجنسیوں کی شہہ پر دوسرے مسلمان کا سر نوچ رہا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ سعودی شہنشاہ یہود و ہنود کو پے درپے دعوت دے رہے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے۔
Bashar Al -Assad
امت مسلمہ کو زلت امیز شکستوں سامراجی غلامی اور زوال کی اتھاہ گہرائیوں و گیراوں سے نکلنے اور عظمت رفتہ کے اوج ثریا تک رسائی کی خاطر یہود و ہنود کی غلامی اور دوستی سے دور رہنے میں ناگزیر بن چکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عدالتوں نے حسینہ واجد کے سامنے سرنڈر کر چکی ہیں۔ ہر طرف ظلم و تعدی جاری ہے۔ انسانیت کے قاتل نامی ریسرچ میں قلمبند کئے گئے واقعات اور سانحات پڑھ کر وجود انسانیت کانپ اٹھتا ہے۔ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے ہر دانشور صحافی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا فریضہ ہے کہ وہ مظلومین کی اہ و بکا کو عالمی سطح پر روشناس کروائے۔ او ائی سی اس صورتحال کو ہینڈل کرنے کے لئے ایک طرف تنظیم کا اجلاس طلب کریں تو دوسری طرف حسینہ واجد کی چیرہ دستیوں کے خلاف یواین او میں قرارداد پیش کی جائے۔ ہماری وزارت خارجہ کا یہ بیان قابل گردن زنی ہے کہ یہ بنگالیوں کا اندرونی معاملہ ہے۔
وزارت خارجہ کے ناعاقبت اندیش ترجمانوں کو درویش کے اس قول سے اشنائی نہیں کہ رشتے نہ تو کانچ کے برتن ہوتے ہیں کہ گر کر ٹوٹ جائیں اورنہ ہی یہ رشتے ٹوٹے ہوئے پھولوں کی طرح نازک و نرم ہوتے ہیں کہ گرتے ہی فنا ہو جائیں۔ سقوط ڈھاکہ کے دور میں پاکستانی فورسز کا ساتھ دینے والے بنگالی راہنماوں جید علمائے کرام اور جماعت اسلامی کے سرخیلوں کے ساتھ ہمارے دلوں کے رشتے قائم ہیں اور یہ رشتے دو قالب یک جان کے مصداق ہیں جو حسینہ واجد اور پاکستانی وزارت خارجہ کے بغض بنگالی عدلیہ کے خون الود فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جائیں۔