ڈھاکا (جیوڈیسک) میانمار کی ریاست رخائن میں کئی دہائیوں سے آباد لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو کیا پتا تھا کہ جس زمین پر انہوں نے آنکھ کھولی وہی زمین ان کے لئے تنگ کر دی جائیگی۔
بدھ مت کے شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں سے پریشان سینکڑوں برمی مسلمانوں کی کشتی بیچ منجدھار ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس صورتحال میں میانمار کی اصول پسند، جرات مند، جمہوریت پسند، انسانی حقوق کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی خاموشی دنیا بھر کیلئے سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
میانمار پارلیمان میں حزبِ اختلاف کی رکن 69 سالہ سوچی اکثر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں لیکن روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اس وقت وہ ملک میں عام انتخابات کی مہم چلا رہی ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس موقع پر روہنگیا مسلمانوں کی حمایت کرکے شدت پسند بدھ مت کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بنگلا دیشی حکومت نے برما سے آئے روہنگیا مسلمانوں کو کیمپ چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے ضس سے ان کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم شیخ حسینہ کے سیاسی مشیر ایچ ٹی امام نے صاف کہہ دیا ہے کہ روہنگیا میانمار کے شہری ہیں۔ بنگلا دیش لمبے عرصے تک ان کی مہمان نوازی نہیں کر سکتا۔ اس لئے انہیں یہاں سے جانا ہوگا۔