جماعت اسلامی کی قانونی حیثیت کے بارے میں بنگلہ دیش کی عدالت آج فیصلہ سنائے گی۔ ڈھاکا (جیوڈیسک) ڈھاکا ہائیکورٹ کی طرف سے فیصلہ اس بارے میں سنایا جائے گا کہ کیا جماعت اسلامی کو ریاستی قوانین سے مطابقت رکھنے والی ایک پارٹی کے طور پر کام کرتے رہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
مقدمے کی بنیاد اس پارٹی کے خلاف دائر کی جانے والی وہ درخواست ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس مذہبی سیاسی جماعت کا منشور مبینہ طور پر بنگلہ دیشی آئین سے متصادم ہے۔ اس مقدمے میں درخواست دہندہ کے وکیل شیخ رفیق الاسلام نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جماعت اسلامی کا منشور 2010 سے نافذ سیکولر ریاستی آئین کی اس طرح نفی کرتا ہے کہ اس منشور میں اللہ کی حکمرانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی حمایت کی گئی ہے۔ شیخ رفیق الاسلام کے بقول اگر عدالت نے اپنے فیصلے میں جماعت اسلامی کی سیاسی رجسٹریشن منسوخ کر دی تو یہ پارٹی موجودہ انتخابی قوانین کے تحت ملک میں آئندہ کسی بھی قسم کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جماعت اسلامی کی سیاسی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا کوئی بھی ممکنہ فیصلہ پہلے ہی سے داخلی کشیدگی کے شکار اس ملک میں نئے عوامی مظاہروں کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ صورت حال اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ بنگلہ دیش کو 1971 کی آزادی کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں ایک خصوصی عدالت کی طرف سے جماعت اسلامی کی اعلی قیادت کے خلاف سنائے جانے والے حالیہ فیصلوں کے بعد سے ریاستی تاریخ کے جن خونریز ترین مظاہروں کا سامنا رہا ہے۔
ان کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔ اس کے برعکس وکیل صفائی تاج الاسلام کا کہنا ہے کہ مذہبی نظریات کی حامل اس سیاسی جماعت کے منشور کی کوئی بھی شق بنگلہ دیشی آئین سے متصادم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جماعت اسلامی کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی تو پھر 28 دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی خود بخود اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واضع رہے کہ بنگلہ دیش میں سیکولر مظاہرین کی طرف سے طویل عرصے سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ 1971 کی آزادی کی جنگ میں جماعت اسلامی کے کردار کی وجہ سے اس پارٹی پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔ تب جماعت اسلامی نے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کی پاکستانی ریاست سے علیحدگی کی مخالفت کی تھی۔
بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران قتل عام اور جنسی زیادتیوں سمیت کئی طرح کے جنگی جرائم میں ملوث رہنے رہنے کے الزام میں موجودہ ملکی حکومت کے قائم کردہ ایک متنازعہ کرائمز ٹریبیونل میں جماعت اسلامی کے کئی رہنماں کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
چار واقعات میں جماعت اسلامی کے مختلف رہنماں کو سزائے موت بھی سنائی جا چکی ہے۔ ان عدالتی فیصلوں کے بعد ملک میں جو وسیع تر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جن میں کم از کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔