ڈھاکہ (جیوڈیسک) بنگلہ دیش کے الیکشن میں دھاندلی، بے ضابطگیوں اور اشتعال انگیزی کے الزامات کے باوجود مغربی ممالک اس جنوب ایشائی ملک میں سیاسی عمل کے تسلسل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے بجائے استحکام کو ترجیح دیں گیے۔
بنگلہ دیش میں تیس دسمبر کو منعقد کرائے گئے پارلیمانی الیکشن میں عوامی لیگ نے ایک مرتبہ پھر بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس پارٹی کی رہنما شیخ حسینہ اب مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمی کا منصب سنبھال چکی ہیں۔
عوامی لیگ نے تین سو نشستوں والی پارلیمان میں دو سو اٹھاسی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ اپوزیشن کے اتحاد کو صرف سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ان نتائج کے بعد اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کے نتائج مسترد کرتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔
نہ صرف انتخابی عمل سے قبل بلکہ الیکشن کے دن بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔ اس الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت، چین اور روس نے فوری طور پر وزیر اعظم شیخ حسینہ کو کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد کے پیغامات ارسال کر دیے۔
اگرچہ مغربی ممالک نے بنگلہ دیش میں ہوئے اس الیکشن میں تشدد اور بے ضابطگیوں کی مذمت کی ہے تاہم ناقدین کے مطابق وہ بھی صرف بیانات ہی دیں گے مگر کسی ایکشن سے گریز کریں گے۔
ووڈ رو ولسن سینٹر فار اسکالرز سے وابستہ ماہر سیاسیات مائیکل کوگلمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ مغربی ممالک کے نزدیک شیخ حسینہ ایک ذمہ دار عالمی رہنما ہیں، جنہوں نے اپنے ملک میں استحکام لانے کی خاطر کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت میں نہ صرف اقتصادی ترقی کی نمو میں بہتری ہوئی ہے بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا اور روہنگیا مہاجرین کو پناہ دی۔ کوگلمان کے خیال میں بنگلہ دیش کے الیکشن ملک کا داخلی معاملہ ہیں، جس پر مغربی ممالک کوئی زیادہ شدید تحفظات نہیں رکھتے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے منسلک سوشل پالیسی کے پروفیسر ڈیوڈ لوئیس کا خیال بھی یہی ہے کہ مغربی ممالک شیخ حسینہ کی حکومت کو مستحکم سمجھتے ہیں، جس نے ملک میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کی اور کئی ایسے مسائل کی طرف توجہ دی، جو مغربی ممالک کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ مغربی ممالک بنگلہ دیش کے الیکشن کے نتائج کو چیلنج کر کے اس ملک میں عدم استحکام کا باعث نہیں بننا چاہیں گے۔