ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے جماعت اسلامی کے رہنما غلام اعظم کے خلاف آج عدالت اپنا فیصلہ سنا رہی ہے۔ عدالتی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی ڈھاکا میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران مبینہ طور پر جنگی جرائم کے ماسٹر مائنڈ غلام اعظم پر عائد الزامات اگر درست ثابت ہو جاتے ہیں۔
انہیں سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے۔ عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی اتوار کے روز ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے حامیوں نے مختلف مظاہروں کا اہتمام کیا جبکہ مزید مظاہروں کے پیش نظر سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ یہ مظاہرے پرتشدد رنگ اختیار کر گئے اور مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا۔
پولیس کے مطابق جماعت اسلامی کے حامی 40 افراد نے ایک پولیس وین پر حملہ کیا اور دیسی ساختہ بم پھینکے۔ نائب پولیس کمشنر سیف الرحمان نے کو بتایا کہ اس دوران پتھرا کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہو گیا۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازع خصوصی عدالت کی طرف سے ماضی میں سنائے جانے والے فیصلوں کے بعد شدید نوعیت کے ہنگاموں کا آغاز ہو گیا تھا۔
اسلام پسند مظاہرین کے بقول 90 سالہ غلام اعظم پر عائد الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جماعت اسلامی کے سربراہ غلام اعظم ہی تھے۔ حکومت کے بقول اس دوران لاکھوں افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔ بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت کی طرف سے 2010 میں بین الاقوامی کرائمز ٹربیونل قائم کیا گیا تھا۔ یہ خصوصی ٹربیونل پہلے بھی جماعت اسلامی کے چار رہنماں کے خلاف فیصلے سنا چکا ہے جن میں سے تین کو سزائے موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پراسیکیوٹر سلطان محمود نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ آج یہ ٹربیونل غلام اعظم کے خلاف مقدمے میں حتمی فیصلہ سنا دے گا۔
واضع رہے کہ بنگلہ دیش میں ریاستی دفتر استغاثہ نے غلام اعظم کا موازنہ نازی جرمنی کے اڈولف ہٹلر سے کرتے ہوئے ان کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ان کے بقول ملزم نے جنگی جرائم کے مرتکب دیگر افراد کی رہنمائی کی تھی۔ دوسری جانب بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اپوزیشن کے اہم رہنماں نے ملک گیر ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی بنگلہ دیش کے اس جنگی ٹربیونل کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس عدالت میں جن ملزمان کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں ان کا تعلق یا تو جماعت اسلامی سے ہے یا پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی سے۔ غلام اعظم اس وقت سیاسی طور پر سرگرم نہیں ہیں لیکن وہ بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے روحانی رہنما تصور کئے جاتے ہیں۔
ان پر جرائم کی منصوبہ بندی، سازش، جرائم پر اکسانے، قتل اور اذیت رسانی جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ سلطان محمود کے بقول اعظم پر مجموعی طور پر 61 الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ملزم کے وکیل تاج الاسلام کے بقول استغاثہ ان کے مکل کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔