بنگلہ دیش کی جنگی جرائم سے متعلق نام نہاد عدالت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل 65 سالہ ملا عبد القادر کو پھانسی دے کر بھارت کو خوش کرنے اور پاکستان کے خلاف اپنے خبث باطن کا کھلم کھلا اظہار کر دیا۔ پاکستان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والے اور بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد کی بھارت سے دوستی کی پینگیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ وہ آجکل اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے کے قریب ہیں اور انتخابات قریب ہیں مگر انکی پارٹی عوامی لیگ عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو چکی ہے اور آمدہ انتخابات میں اسکی شکست یقینی ہے۔
اپنی پارٹی کو سہارا دینے اور آنے والے انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے کے لئے ”حسینہ ” نے مختلف حربے استعمال کرنا شروع کئے ہیں جن میں سے ایک جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں جنگی ٹربیونل کے ذریعے سزائیں دلوانا ہے۔ جماعت اسلامی چونکہ ایک عرصہ سے عوامی لیگ کی حریف جماعت نیشل پارٹی کی حلیف چلی آرہی ہے جسکی سربراہ خالدہ ضیاء ہیں اور اس وقت بھی جماعت اسلامی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہے اور حسینہ واجد کچھ اس وجہ سے بھی جماعت اسلامی کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر رہی ہے۔
حسینہ واجد نے 2008 میں جب حکومت بنائی تھی تب اعلان کیا تھا کہ ایک جنگی جرائم کا ٹربیونل قائم کیا جائے گا جسکے تحت ان لوگوں کو سزائیں دی جائیں گی جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ 2010 میں اس مقصد کیلئے خصوصی ٹربیونل قائم کر دیا گیا۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما دلاور حسین کو گرفتار کیا گیا اور ان پر بھی وہی الزام لگایا گیا جو پروفیسر غلام اعظم پر عائد کیا گیا ہے۔ ان پر جنگی جرائم کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ چنانچہ اسی سال مارچ میں انکو موت کی سزا سنائی گئی۔
دلاور حسین کی سزا پر بنگلہ دیش میں شدید ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس میں 35 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما عبدالقادر کو بھی اسی ٹربیونل نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کو نوے برس قید کی سزا سنائی گئی ہے، اسی نام نہاد ٹربیونل کے فیصلے کے بعد ہی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما ملا عبد القادر ڈھاکہ کی مرکزی جیل میں پھانسی پر جھول کر شہادت سے کے رتبے سے سرفراز ہو گئے۔ عبدالقادر ملّا پر الزام تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے تحت قائم کی گئی البدر نامی تنظیم کے رکن تھے جنہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود قوم پرستی کے بجائے اسلام کے ناطے سے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا 14 اگست 1948 کو موجودہ بنگلہ دیش کے ضلع فرید پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1968 میں راجندر کالج فرید پور سے گریجوایشن کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کیا تھا۔ انہوں نے بطور صحافی بھی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ بنگلہ زبان کے روزنامے ”سنگرام” ڈھاکہ کے ایگزکٹو ایڈیٹر اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے ممبر رہے ہیں۔ 5 فروری 2013ء کو بنگلہ دیش کی متعصب عدالت نے عبدالقادر کو سزائے موت کی سزا سننے کے بعد عبدالقادر ملا نے بلند آواز میں ‘اللہ اکبر’ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے عدالت میں موجود ججوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ”ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کرنے پر تمہیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کریگا۔ عدالتی فیصلے کے بعد عبدالقادر ملا مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے۔ عدالت سے نکلتے وقت انہوں نے میڈیا کے سامنے فتح کا ( victory) کا نشان بنایا تھا۔
Jamaat Islami Flag
20 ستمبر کو ان کے صاحبزادے نے اپنے عظیم والد سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بتا تھا کہ ‘میرے والد نے مجھ سے کہا ہے کہ بیٹا میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ جوانی میں جس شہادت کی دعا مانگا کرتا تھا اللہ کے فضل سے اب وہ میرے سامنے ہے، اس شہادت پر غم نہ کرو بلکہ شہادت کی قبولیت کے لئے رب سے دعا مانگو” بنگلا دیش میں جنگی جرائم کی عدالت نے 1971 میں جماعت اسلامی کے تحت قائم کی گئی البدر نامی عسکری تنظیم کے رکن کی حیثیت سے عبدالقادر ملا کو 300 سے زائد بنگلا دیشی دانشوروں کے اغوا اور قتل میں ملوث قرار دیتے ہوئے سزا سنائی تھی، بنگلہ حکومت نے عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ڈھاکا سمیت ملک کے مختلف حساس مقامات پر پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کئے، اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے پھانسی کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے فیصلے کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔
جبکہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماوں نے متنبہ کیا تھا کہ اگر عبدالقادرملا کو پھانسی دی گئی تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پر پاکستان میں بھی شدید احتجاج سامنے آیا، جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ عبدالقادر ملاکی پھانسی کھلا ظلم اور بربریت ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے ہندو نوازی کی واضح دلیل ہے، پاکستان اور او آئی سی کے ممالک اس ظلم کا فوری نوٹس لیں تاکہ مسلمانوں میں باہمی فتنہ و انتشار سے بچا جا سکے، عبدالقادرملا کو پاکستان کا ساتھ دینے پر تختہ دار پر لٹکایا گیا، حکومت پاکستان کو چاہئے وہ اس بات کا سخت نوٹس لے تا کہ ایسے سانحات کا تدارک ہو سکے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن کہتے ہیں کہیہ نام نہاد ٹریبونل کا ظالمانہ فیصلہ تھا جس پر عملدرآمد کر کے ایک بے گناہ شخص کو موت کی سزا دی گئی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنے اقتدار کو طول نہیں دے سکتی۔ پاکستان کی حکومت نے مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ دینے والے محب وطن پاکستانیوں کی سزا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی اگر وہ چاہتی تو شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والے معاہدے کو دنیا کے سامنے پیش کر کے ان سزائوں کو ختم کرایا جاسکتا تھا جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلائیں گے۔ ملا عبدالقادر کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، وہ شہید پاکستان ہیں، انشاء اللہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش اس آزمائش سے کندن بن کر نکلے گی۔
عالمی اداروں کی مخالفت کے باوجود بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد بھارت سرکار کی خوشنودی کیلئے پاکستان کے تحفظ کو اپنا دین و ایمان سمجھنے والوں کو چن چن کر قتل کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور بنگلہ دیشی عدالتیں حکومتی ایماء پر انصاف کا قتل عام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہے، جماعت اسلامی کے راہنمائوں اور متحدہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ بنگلہ دیش کو اپنا الگ تشخص قائم رکھنا چاہئے اور بھارت کی کالونی نہیں بننا چاہئے، یہ مطالبہ بنگلہ دیش کے عوام کا ہے۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور ترکی و سوڈان کی حکومت نے حسینہ واجد کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے احکامات پر نظر ثانی کریں اور مسلم راہنمائوں کے خلاف غیر آئینی سزائوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔
بھارت خطے میں امریکی سرپرستی سے اپنی بالا دستی کے خواب دیکھ رہا ہے، بنگلہ دیش میں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کیلئے وہ بنگلہ دیش میں اسلام پسند اور بھارت مخالف راہنمائوں کو دیوار سمجھتے ہوئے انہیں اپنے رستہ ہٹانا چاہتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد بھارت کے ایما پر 71ء میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں سے انتقام لے رہی ہے اور ایک نام نہاد عدالت بنا کر جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو موت اور طویل قید و بند کی سزائیں دی جاری ہیں جبکہ حکومت پاکستان خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور این جی اوز چپ سادھے بیٹھے ہیں، جانوروں کے حقوق پر آسمان سر پر اٹھا لینے والی این جی اوز اسلامی تحریک کے راہنماوں کو بغیر کسی جرم کے موت کی سزاوں پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی بدترین مثال ہے۔