تحریر: ممتاز حیدر بنگلہ دیش میں 2 اپوزیشن بزرگ رہنمائوں کو پھانسی دیدی گئی۔ علی حسن مجاہد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جنرل سیکرٹری اور صلاح الدین قادر بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنما تھے۔ 61 سالہ صلاح الدین قادر چودھری اور 67 برس کے علی حسن مجاہد کی معافی کی اپیلیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسترد کی گئیں۔ انہیں 1971ء میں پاکستان کا ساتھ دینے پر سزا سنائی گئی تھی۔
امریکا سمیت عالمی برادری نے بنگلہ دیش کے عدالتی نظام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل علی احسن مجاہد اور سابق حکمراں جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما و سابق وزیر صلاح الدین چوہدری اپنی جان سے گزر گئے ، لیکن انصاف کا قتل کرنے والی عدالت کے سامنے جان بخشی کی اپیل نہیں کی۔ دونوں رہنماؤں کی نماز جنازہ گزشتہ روز ان کے آبائی علاقوں میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ پھانسی کی سزا پانے والے علی احسن مجاہد نے سزائے موت کا فیصلہ سننے کے بعد اپنے بیٹے کو جوپیغام دیا وہ نہایت جرات و ہمت کے مالک شخص کا ہی بیان ہو سکتا ہے۔
Bangladesh Opposition Leaders Hang
انہوں نے اس مقدمے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے حکومتی انتقام کا شاخسانہ قرار دیا۔ علی احسن مجاہد کا کہنا تھا کہ سزائے موت میرے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتی، میں موت سے نہیں ڈرتا، میں اللہ کے دین کی خدمت اور سر بلندی کے لیے اپنی جان دینے کو ہر لمحہ تیار ہوں۔ اللہ مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لاہور میں مال روڈ پر مسجد شہداء کے باہر غائبانہ نماز جنازہ مسجد شہداء ادا کی گئی جس میں جماعت اسلامی اور مختلف سماجی تنظیموں کے سینکڑوں کارکنوں نے شرکت کی۔ نمازجنازہ حافظ محمد ادریس نے پڑھائی۔ امیر جماعتہ الدعوة حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے قائدین کو پھانسیوں سے ایک بار پھر نظریہ پاکستان زندہ ہورہا ہے۔
پھانسیاں اور قیدوبند کی صعوبتیں حق کی آواز نہیں دبا سکتیں۔مرید کے میںحافظ محمد سعید نے غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ و فاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اس قتل عام پر خاموش ہیں میں انتہائی رنجیدہ ہوں کہ ہم ان لوگوں کیلئے کچھ نہ کر سکے جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آج سے 45 سال پہلے اپنے وطن پاکستان سے وفاداری نبھائی اور اس وقت کی ایک آئینی اور قانونی حکومت کا ساتھ دیا۔ انسانیت کے قتل اور پاکستانیت سے انتقام کی آگ کو اب ٹھنڈا ہونا چاہیے، آئندہ کابینہ کے اجلاس میں یہ مسئلہ پھر اٹھائوں گا تاکہ بنگلہ دیش حکومت کے انتقام کی آگ کے آگے دیوار کھڑی کی جا سکے۔ دفتر خارجہ نے بنگلہ دیش میں معمر بنگالی سیاسی رہنمائوں کی پھانسی پر شدید دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین قادر چودھری اور علی احسن مجاہد کی پھانسی پاکستان کیلئے پریشان کن ہے۔ 1971ء کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری بھی بنگلہ دیش میں معمر سیاسی رہنمائوں کے ناقص مقدمات کا نوٹس لے رہی ہے۔
پاکستان نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 9 اپریل 1974ء کو کئے جانے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے مفاہمتی انداز اپنائے۔پھانسی کی سزا پانے والے صلاح الدین قادر چودھری ایک بااثر سیاست دان کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اور وہ چھ بار رکن پارلیمان رہ چکے تھے جبکہ علی احسن محمد مجاہد بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما تھے۔ جماعت اسلامی نے پنجاب اسمبلی میں بنگلہ دیش میں پھانسیوںکے خلاف قرارداد پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی۔ پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اخترکی جانب سے جمع کرائی جانے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ”یہ ایوان 1971ء میں پاکستان سے وفا اور محبت کے جرم میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل علی احسن مجاہد اور صلاح الدین کو متنازعہ کرائمز ٹربیونل کے ذریعے انصاف کا خون کرکے پھانسی دینے پر بنگلہ دیشی حکومت کی شدید مذمت کرتا ہے۔
Pakistan and Bangladesh
یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش سے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کرے۔ 1973ء کے بھٹو، مجیب اور اندرا معاہدے اور سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے ذریعے بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم اور عدالتی قتل کو روکے”۔ سینٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفرالحق کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں سیاسی انتقام جس انداز لیا جا رہا ہے کہ ایک کھلی حکومتی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ اس دہشت گردی کے خلاف عالمی طاقتوں کو بھرپور مزاحمت کرنی چاہئے۔ یہ قتل کی واردات سنگین خونریزی کے واقعات کا جواز بن سکتی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ آج پاکستان کے عوام کیلئے یوم سیاہ ہے، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے قائدین نے امام حسین کی یاد تازہ کردی ہے کیونکہ امام حسین نے یزید کے ہاتھوں بیعت لینے سے انکار کرکے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور شہادت کو ترجیح دی، سوال یہ ہے کہ 40 سال بعد ان قائدین پر کیوں مقدمہ چلایا گیا۔
ان کا جرم یہ ہے کہ اْنہوں نے 1971ء میں پاکستان اور پاک فوج کے جھنڈے اور نام و نظریئے کے ساتھ وفاداری کی۔ علی احسن مجاہد کو پھانسی سے قبل رحم کی اپیل کرنے کا کہا گیا مگر اْنہوں نے ظالم اور بھارت کی ایجنٹ حسینہ واجد کو رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔ مجھے افسوس ہے کہ بنگلہ دیش اور سرینگر میں اسلامی پاکستان کی خاطر قربانیاں دی جارہی ہے مگر ہمارے وزیراعظم نوازشریف اسلامی پاکستان کے بجائے لبرل پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے کے جرم میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئیں۔
حسینہ واجد انتقامی سیاست کررہی ہے جس کاعالمی دنیا اور اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہئے۔بنگلہ دیش میں ڈمی کورٹس کے ذریعے45سال بعد متحدہ پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا گیاہے۔ دنیا بھرمیں ایسی ناانصافیاں کہیں نہیں ہوئیں جیسی آج حسینہ واجد کی حکومت میں بھارتی آشیربادکے نتیجے میں ہورہی ہیں۔سزائے موت اور خودساختہ عمرقید کی سزائیں بنگلہ دیشی حکومت کی نفرت،سیاسی انتقام،جھوٹ اوربدنیتی پرمبنی ہیں۔الزامات اورنام نہاد عدالت کی جانب سے فیصلے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جان دینے کافیصلہ کوئی گھاٹے کاسودا نہیں ہے۔
United Nations
حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ1971میں پاکستان کی سلامتی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کوتنہامت چھوڑے۔قومی رہنمائوں کوسزائے موت جیسی سنگین سزائیں بنگلہ دیش کااندرونی معاملہ نہیںبلکہ اس کومناسب اور بھرپورانداز میں تمام عالمی فورمز پراٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف بنگلہ دیش میںآئین وقانون کی دھجیاںاڑائی جارہی ہیں تودوسری جانب عالمی دنیا،اقوام متحدہ اور امن کی علمبردار این جی اوز اندھی،گونگی اور بہری ہوچکی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حسینہ واجد کوجوڈیشنل قتل عام سے روکاجائے اور اس کے لئے پاکستان دیگرم مالک کے ساتھ مل کر اپنا مثبت اور بروقت کردار ادا کرے۔