تحریر : سید انور محمود ہر سال 16 دسمبر کو ہم متحدہ پاکستان کو یاد کرتے ہیں ، متحدہ پاکستان سے مراد وہ پاکستان ہے جس کا ایک بازو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور دوسرا بازو مغربی پاکستان۔ 16 دسمبر 1971ء کو یہ دونوں بازو علیدہ علیدہ ہوگے ، 16 دسمبر 1971ءکے بعدمشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کے طور پرظاہر ہوا۔ بنگلہ دیش کیوں بنا، کیسے بنا یہ سب آپکو بے شمار مضامین میں پڑھنے کو مل جائے گا۔ اس مضمون میں، میں صرف اُن دو الزامات کا ذکر کرونگا جو بنگلہ دیش کے حوالے سےسراسر جھوٹ پر مبنی ہیں۔اس مضمون کےلیے میں نے مصنف شمیم کے ایک مضمون “مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ کے قتل کا افسانہ” اور ڈاکٹر صفدرمحمود کے کالم بعنوان “خدارا قائداعظم کو معاف کردو” سے مدد لی ہے۔ پہلا الزام، شیخ مجیب الرحمان جسکو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا تھااپنی رہائی کے بعد ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ایک جلسے میں پاکستان پر الزام لگارہا تھا کہ “30 لاکھ انسانوں کا قتل ہوا ہے جبکہ 5 لاکھ عورتوں کی آبروزی کی گئی”۔ دوسرا الزام ، اُن لوگوں کا ہے جنہیں بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح سے خدا واسطے کی عداوت ہے اُنکا الزام ہے کہ “بنگلہ دیش تو اُس وقت ہی بن گیا تھا جب محمد علی جناح نے بنگلہ دیش میں اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دیا تھا “۔
شیخ مجیب الرحمان نے 29 جنوری 1972ء کو سرکاری سطح پر ایک 12 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے۔ جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمہ یہ کام تھا کہ “وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شرپسندوں کی نشاندہی کرے”۔ عبدالرحیم انکوائری کمیٹی نے بڑی تن دہی سے کام کیا، ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے کوائف جمع کیے، اور انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمائندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ جو مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا
بیان کرتا ہے کہ”مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے 2 ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہو سکیں کہ اُنہیں پاکستانی افواج نے مارا تھا”۔ (روزنامہ گارڈین لندن، 6 جون 1972ء)۔ تاہم جب تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے بنگلہ دیش میں اس ساڑھے آٹھ ماہ کی بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں 56 ہزار 7 سو 63 افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جا سکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ کہ “جونہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہو جانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پر دے ماری اور غصے میں چلانے لگا کہ “میں نے 30 لاکھ کہے ہیں 30 لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے
Sheikh Mujeebur Rehman
یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے”۔ ( گارڈین لندن 6 جون 1972ء)۔ یہی نمائندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ “بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق شیخ مجیب الرحمان نے مقتولین کی مدد کے لئے 2 ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لئے 72 ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں 50 ہزار مقتولین کے لئے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں”۔ (گارڈین، لندن 6 جون 1972ء)۔ عبدالرحیم انکوائری کمیٹی نے جو خود شیخ مجیب الرحمان کے حکم پر بنائی گئی تھی اپنی رپورٹ میں مجیب کے دونوں الزامات “30 لاکھ انسانوں کا قتل اور 5 لاکھ عورتوں کی آبروزی” کو مسترد کردیا تھا اور بعد میں ان الزامات میں بیان کیے گئے دونوں اعدادوشمار بین الاقوامی طور پر بھی غلط ثابت ہوچکے ہیں۔
اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی نے اپریل 1972ء میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو لیا، جو اس کی کتاب “انٹرویو ود ہسٹری” میں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا تھاکہ “شیخ مجیب الرحمان ایک پیدائشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے، مثلاََ وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتل عام میں 30 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے، وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بشمول اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ 30 لاکھ لوگ مارے گئے، 30 لاکھ لوگ قتل ہو گئے۔ بھارتیوں نے کہا تھا کہ 10 لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب نے پہلے 10 کو 20 کیا اور پھر 30 لاکھ بنا دیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 60 سے 70 ہزار تھی، جبکہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق 30 ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریباََ 50 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ کیونکہ 50 ہزار اور 30 لاکھ لوگوں کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کہتی ہے کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔ اُس نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اُسے جواز بنا کرمشرقی پاکستان پر حملہ کرسکے”۔ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رؤف کلاسرا صفحہ 362، 363)۔
شیخ مجیب الرحمان نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ ذہنوں کو متاثر کرتی رہی۔ پھر 15 جون 1993ء کو بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیا الرحمٰن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہہ کر بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا کہ عوامی لیگ نے 30 لاکھ مقتولین آزادی کا افسانہ گھڑا، جبکہ حقیقت اس کے صرف 10 فیصد کے قریب ہے۔ اس پر عوامی لیگ کے ایک رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا کہ یہ بات ہم نے اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں۔ پھر ہندو رکن اسمبلی شدھن گھشوشیکر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اکبر حسین اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں۔ تب وزیر اکبر حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش حکومت بننے کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتہ ہوا ہے، وہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتہ بتا کر 2 ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کے جواب میں بنگلہ دیش بھر سے صرف 3 لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ اگر وہ 30 لاکھ ہوتے تو لازماََ وہ بھی نام درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا، باقی 27 لاکھ کہاں گئے؟۔ جب یہ جواب ملا تو پورے ایوان میں خاموشی چھا گئی۔( بنگلہ دیش قومی اسمبلی کی روداد 16،15 جون 1993ء بحوالہ 30 لاکھ کی کہانی کے پیچھے صفحہ 5)۔
Urdu
دوسرا الزام یہ ہےکہ ” بنگلہ دیش تو اس وقت ہی بن گیا تھا جب محمد علی جناح نے بنگلہ دیش میں اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دیا تھا “۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے بنگلہ دیش میں اردو زبان کو سرکاری زبان قرار دیا تھا؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ کئی کتابوں مصنف اور مشہور مورخ ڈاکٹر صفدرمحمود اپنے 21 دسمبر 2011ء کے کالم بعنوان “خدارا قائداعظم کو معاف کردو” میں لکھتے ہیں کہ بلاشبہ قائداعظم نے اپنے سرکاری دورے کے دوران مشرقی پاکستان میں اردو کو واحد قومی زبا ن قرار دیا کیونکہ اردو کا نہ صرف مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے گہرا تعلق تھا بلکہ اردو نے تحریک پاکستان میں بھی اہم کردارسرانجام دیا تھا۔میری خواہش ہے کہ لوگ قائداعظم کی ڈھاکہ والی تقریر پڑھیں جو 21مارچ 1948ء میں جلسہ عام میں کی گئی۔ اس تقریر کے ایک ایک لفظ میں قومی اتحاد کی شدید آرزو تڑپتی نظر آتی ہے۔قائداعظم جانتے تھے کہ پاکستان دشمن عناصر قوم میں تفریق اور انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔اُن کو خبر تھی کہ ہندوستان مشرقی پاکستان کو متحدہ بنگال کا حصہ بنانے کے لئے سازش کر رہا ہے، انہوں نے ان ہی خطرات کا اپنی تقریر میں برملا اظہار کیا تھا۔
قومی اتحاد کے پس منظر میں قائداعظم نے واضح کیا کہ ایک قومی زبان کی ضرورت کیونکر ہے ذرا ان کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے “اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ زبان آپ کی معمول کی زندگی یا بنگالی زبان پر اثر انداز ہوگی کیونکہ بالآخر اس کا فیصلہ صوبے کے عوام کو کرنا ہے کہ اُن کے صوبے کی زبان کیا ہوگی؟ میں یہاں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ریاست پاکستان کی زبان اردو ہوگی کیونکہ ایک زبان کے بغیر نہ قوم متحد رہ سکتی ہے اور نہ کام کرسکتی ہے۔اس لئے ہماری سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن اس فیصلے میں وقت لگے گا” گویا قائداعظم نے واضح کردیا کہ یہ ان کی نصیحت بحیثیت بابائے قوم ہے لیکن اس کا فیصلہ دستور سازی کے دوران ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ مشرقی پاکستان کی حکومت اور لوگ اپنے صوبے کے لئے بنگالی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرسکتے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اسے ذریعہ تعلیم اور صوبائی زبان قرار دے کر اپنی ثقافت اور ادب کو ترقی دے سکتے ہیں لیکن صوبائی رابطے کے لئے اردو قومی زبان ہوگی جبکہ عملاً صوبائی رابطے، سرکاری خط و کتابت اور بین الاقوامی سطح پر صرف انگریزی زبان ہی استعمال کی جارہی تھی اور آج بھی وہی نظا م جاری و ساری ہے”۔
بھارت 24 سال تک پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور شیخ مجیب الرحمان ایک بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کرتا رہا، شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم حسینہ واجد اچھی طرح جانتی ہے کہ بنگلہ دیش بننے کی سازش میں اُسکا باپ شامل تھا، لیکن غدار باپ کی غدار بیٹی آج بھی پاکستان پر مختلف جھوٹےالزام لگاتی رہتی ہے۔