تحریر: سید انور محمود پاکستان بننے سے پہلے تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والوں میں کانگریس کی زلف کے اسیر مولانا ابوالکلام آزاد تھے یا مولانا حسین احمد مدنی جو زندگی بھر کانگریس کی غلامی کرتے رہے۔ جمعیت علمائے ہند کا ایک بڑا حصہ جو علماء پر مشتمل تھا قیام پاکستان کا سخت مخالف تھا۔ ان علماءمیں مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی شامل تھے۔ خدائی خدمت گار خان عبدالغفار خان گاندھی سے متاثر تھے، قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے، خان عبدالغفار خان کو ”سرحدی گاندھی“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے نہ تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور نہ حمایت لیکن مولانا مودودی مسلم لیگ کے مخالف تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مفتی محمود کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ جی ایم سید بھی قائد اعظم سے سیاسی اختلاف ہونے کی وجہ سے پاکستان مخالف کیمپ میں چلے گے تھے، سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جی ایم سید نے بھی ‘سندھو دیش’ کا نعرہ لگایا اور سندھ متحدہ محاذ کو ‘جیے سندھ متحدہ محاذ’ میں تبدیل کر دیا تھا۔
تحریک پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناع کی کردار کشی کی گئی،مسلم لیگی رہنماوں کو دھمکیاں دی گئیں اور پاکستان کے مطالبے کو ترک کرنے کے لیے دباو ڈالا گیا۔ مسلم لیگ کے رہنماوں نے ان حربوں اور ہتھکنڈوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اور پاکستان وجود میں آگیا۔ آزادی کی اس جنگ میں دونوں اطراف کے لاکھوں لوگ مارئے گئے، پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں لوگ جن میں کچھ صف اول کے وہ رہنما بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا بھارت میں ہی رہ گئے، آج بھی بھارت میں کرڑوں مسلمان رہ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی تقریباً ایسی ہی صورتحال ہے، لاکھوں ہندوں پاکستان میں آباد ہیں اور بھارت سے زیادہ وہ رہنما پاکستان میں موجود تھے جو پاکستان بننے کے مخالف تھے ، دونوں طرف سب نے اپنی پوری زندگی بغیر کسی خوف کے گذاری۔ ان رہنماوں پر جو پاکستان مخالف تھےکبھی اس بات پر کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی مخالفت کیوں کی تھی، اب تو ان کی اولادیں اور پوتے پاکستان میں سیاست کررہے ہیں۔ پاکستان میں حکومت چاہے فوجی رہی ہو یا جمہوری ، پاکستان کے کسی بھی حکمران نے پاکستان مخالفوں پر کبھی اس الزام پرمقدمہ قائم نہیں کیا کہ انہوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت کیوں کی تھی، لیکن جب بھی پاکستان میں جمہوریت بحال ہوئی عوام نے اپنے ووٹوں سے ان تمام جماعتوں کو مسترد کردیا جن کے رہنما تحریک پاکستان کے حامی نہیں تھے۔
Moulana Motiur Rahman Nizami
بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت نے اب تک جن افراد کو پھانسی دی ہے وہ سب بنگلہ دیشی تھے کوئی پاکستانی نہیں تھا۔ 2010ء میں قائم ہونے والے جنگی جرائم کے ٹریبونل نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے 73 سالہ امیر مولانا مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971ء کی جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں پھانسی کی سزا دی تھی۔ حسینہ واجد حکومت نے دس مئی 2016ء کو مولانا نظامی کو پھانسی دے دی۔ جماعت اسلامی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے ایک حقیقت کے طور پر بنگلہ دیش کو قبول کرلیا تھا، جماعت اسلامی کی قیادت بھی عام انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمنٹ میں پہنچی اور حکومتوں کا حصہ بنی۔ خود مولانا مطیع الرحمٰن نظامی دو مرتبہ خالدہ ضیاء کابینہ میں شامل رہے۔ ا س تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں کہ حسینہ واجد جنگی جرائم کے نام پر اپنے سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگارہی ہیں۔مولانا نظامی پر الزام تھا کہ انھوں نے ’البدر‘ نامی تنظیم کے لیڈر کی حیثیت سے ان بنگالیوں کی نشاندہی کی جو پاکستانی فوج سے لڑرہے تھے اور انکو ہلاک کرنے میں پاکستانی فوج کی مدد کی۔ اس سے پہلے اسی ٹریبونل نےجماعت اسلامی کے رہنماؤں عبدالقادر ملا اور قمر الزماں سمیت کئی افراد کو پھانسی کی سزا دی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور متعدد عالمی مبصرین حسینہ واجد حکومت کی جانب سے بنائے گئے اس نام نہاد ٹریبونل کو انصاف کے عالمی معیارات کے منافی قرار دیتے ہیں ۔
انیس سو سیتالیس کے بعد 1971ء میں سابق مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ سے قبل جو کچھ ہوا وہ ایک بہت بڑا خونی سانحہ تھا، انسانیت کو دونوں طرف سے پامال کیا گیا۔ لیکن شاید حسینہ واجد کی نظر میں وہ غیر بنگالی انسان نہیں تھے جن کو اس عرصے میں بربریت کا نشانہ بنایا گیا؟ اس سانحہ کے دوران کتنے غیر بنگالی قتل ہوئے؟ غیر بنگالیوں کی نسل کشی، قتل، تشدد اور عصمت دری کے مجرموں کے ثبوت حکومت پاکستان نے 1971ء میں ہی پوری دنیا کو دے دیے تھے۔ 1971ء میں پاکستان کی وزارت اطلاعات نے ایک کتاب “ٹیررز ان ایسٹ پاکستان” چھاپ کر یا تو اپنے سفارت خانوں کے زریعے تقسیم کی یا پھر لندن کے ٹریفیگل اسکوائرمیں 14 اگست 1971ء کے مظاہرئے میں تقسیم کی، اس کتاب میں وہ تصاویر موجودتھیں جو انسانیت کو شرمارہی تھیں، جس میں غیر بنگالی حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے جارہے تھے ، بچوں کے پیٹوں میں بندوقوں کی سنگین ڈال کر انکو مردہ حالت میں اٹھاکر ناچا جارہا تھا۔ اگر یہ کتاب اُس وقت پاکستان میں منظرعام پر آجاتی تو شاید مغربی پاکستان میں جو بنگالی موجود تھے انکا حفاظت سے بنگلہ دیش جانا ناممکن ہوتا۔
India and Bangladesh
بنگلہ دیش عملاً بھارت کی کالونی بن چکا ہے۔ حسینہ واجد جو کارروائیاں کررہی ہیں انہیں بھارت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عالمی فورم پر اگر کہیں کوئی آواز اٹھتی ہے تو بھارت پوری طرح بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ پاکستان دشمنی میں مبتلا بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد نے جنگی جرائم کا ایک نام نہاد ٹریبونل بنا کر اپنےمخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حسینہ واجد انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے غیر بنگالیوں کی نسل کشی، قتل، تشدد اور عصمت دری کے مجرم عوامی لیگ کے ان بزرگ لیڈروں پر بھی ایسے ہی مقدمات چلائیں گی جیسے کہ وہ جماعت اسلامی کے لیڈروں پر چلا رہی ہیں؟ 1974ء میں پاکستان نے ساری تلخیاں بھلا کر بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا تھا۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا کہ ماضی کے واقعات کو بھول کر مستقبل میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔
حسینہ واجد نے اپنے آئین و قانون ہی کو نہیں، ساری دنیا کے ضابطوں، قاعدوں، قوانین اور معاہدوں کو پاوں تلے روند ڈالا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں پاکستان بننے کی جنہوں نے مخالفت کی کوئی جرم نہیں کیا، بلکل اسی طرح 1971ء میں سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں بھارتی سازش اور مددکے تحت چلائی جانے والی علیحدگی کی تحریک کے مقابلے میں جس نے بھی حکومت پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان کو بچانے کی کوشش کی اس نے بھی کوئی جرم نہیں کیا۔حسینہ واجد کی یہ خونی سیاست ان کے ملک میں نفرت اور انتشار کے فروغ کا سبب بنے گی اور اس کے نتائج بنگلہ دیش کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کو بنگلہ دیش سے بات کرنے کے بجائے ہیومین رائٹس واچ ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، امریکا ، یورپی یونین، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ‘‘بنگلہ دیش میں انسانیت کے قتل’’ کو روکیں۔