ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلہ دیش میں اسپیشل ٹریبونل نے 1971 کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت، جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ اتوار کو ڈھاکا میں جب جج عبیدالحسن نے پرہجوم کمرہ عدالت میں فیصلہ سنایا تو ملزم میر قاسم علی پرسکون انداز میں بیٹھے رہے۔
قاسم جماعت اسلامی کی اعلیٰ ترین پالیسی کونسل کے رکن ہیں اور پارٹی کی مالی امداد کرنے والے اہم ترین رہبنما تصور کیے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے عدالت نے پارٹی کے رہنما مطیع الرحمان نظامی کو بھی 1971 کے جنگی جرائم کے جرم میں سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا جبکہ ایک اور رہنما کو اس سے قبل پھانسی بھی دی جا چکی ہے۔
عدالت کی جانب سے سزائے موت کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے اتوار کو ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے تاہم کسی بھی قسم کے پرتشدد واقعات کی اطلاع نہیں ملی۔ اس سے قبل عدالت کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلوں کے بعد ملک بھر میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے تھے۔
بنگلہ دیش نے 1971 میں نو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں پاکستانی فوجیوں اور ان کے مقامی ساتھیوں پر تین لاکھ افراد کے قتل کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق اس دوران تقریباً دو لاکھ عورتوں کا ریپ کیا گیا اور ایک کروڑ کے قریب افراد پروسی ملک ہندوستان میں نقل کرنے پر مجبور ہوئے اور انہیں کیمپوں میں زندگی گزارنی پڑی۔
ٹریبونل نے قاسم کو آٹھ جرائم میں ملوث پایا جن میں سے دو میں سزائے موت دی گئی جن میں ایک نوجوان کو اغوا کرنے کے بعد اسے تشدد کر کے ہلاک کرنے کا جرم بھی شامل ہے۔ عدالت نے جماعت اسلامی کے رہنما کو دیگر الزامات میں 72 سال قید کی بھی سزا سنائی جبکہ قاسم کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ واضح رہے کہ 2010 سے اب تک 1971 کے جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف 12 فیصلے سنائے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے خلاف تھے۔