بنگلہ دیش : جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی کی سزا متوقع

Jamaat-e-Islami

Jamaat-e-Islami

ڈھاکہ (جیوڈیسک) بنگلہ دیش کے ایک اہم مذہبی رہنما کے خلاف فیصلہ سامنے آنے کے بعد متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہزاروں بنگلہ دیشی فوجیوں کو پورے ملک میں تعینات کر دیا گیا ہے۔

آج بروز منگل بنگلہ دیشی عدالت کے اسپیشل ٹریبونل کی جانب سے جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمان کے خلاف حتمی فیصلہ سنایا جانا ہے۔ مطیع الرحمان پر 1971ء میں ہونے والی جنگ کے دوران ہزاروں بنگلہ دیشی افراد کے قتل کا الزام تھا۔

جماعت اسلامی کے رہنما پر نسل کشی، قتل،تشدد، ریپ اور املاک کو نقصان پہنچانے سمیت 16 مقدمات عائد کیے گئے تھے۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ نو مہینوں تک جاری رہنے والی اس جنگ کے دوران پاکستانی فوجیوں نے مقامی افراد کے تعاون سے تیس لاکھ بنگالیوں کو قتل، دو لاکھ خواتین کا ریپ اور تقریباً دس ملین افراد کو انڈیا میں قائم پناہ گزینوں کے کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔

بنگلہ دیشی فوج کی ایلیٹ اینٹی کرائم فورس ریپڈ ایکشن بٹالین کے ترجمان اے ٹی ایم حبیب الرحمان کے مطابق آٹھ ہزار سپاہیوں کو ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ جماعت اسلامی کے رہنما کے خلاف فیصلہ سامنے آنے پر کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس قبل بھی اس طرز کے فیصلوں کے بعد پُر تشدد احتجاج دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے قائم کیے گئے دو اسپیشل ٹریبونلز نے اب تک نو فیصلے دیئے ہیں، جن میں جنگی جرائم میں ملوث دس افراد کو سزاسنائی گئی ہے۔ ء 1971کی جنگ میں بنگالیوں کو قتل کرنے کے جرم میں جماعت اسلامی کے ایک سینیئر رہنما کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔

مطیع الرحمان نظامی کے خلاف کیس کے مطابق نظامی ملیشیا گروپ ‘البدر’ کا ایک اہم رکن تھا، جس نے پُرتشدد کارروائیوں اور اساتذہ، انجینئرز اور صحافیوں سمیت آزادی کے حامی دیگر افراد کو جنگ کے دوران ہلاک کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما پر الزام ہے کہ انہوں نے چھ سو بنگالیوں کو یا تو خود قتل کیا یا پھر اُن کے قتل کے احکامات جاری کیے۔

کیس میں مطیع الرحمان کو پھانسی کی سزا سنانے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا، جبکہ وکیل دفاع کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ مطیع الرحمان کے خلاف یہ الزامات سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے تھے۔ مطیع الرحمان نظامی 2001ء سے 2006ء کے دوران سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کے دور حکومت میں بنگلہ دیشی کیبنٹ کے وزیر رہ چکے ہیں اور انہیں رواں سال جنوری میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔