بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں سینکڑوں افراد نے قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے شدید احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے لگائی جانے والی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمیشن کے ڈپلومیٹک زون میں داخل ہو ئے اور ہائی کمشن کے باہر لگے سبز ہلالی پرچم کو نذر آتش کر دیا اور پاکستان کے خلا ف شدید نعرے بازی کی۔مظاہرین نے احتجاج کے دوران مختلف مقامات پر توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو بھی کیا، بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں بھی پاکستان کے خلاف مظاہرے ہوئے’ مظاہرین نے پاکستانی پرچم اور عمران خان ،چوہدری نثارکے پتلے نذر آتش کئے جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے پاکستانی ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے اور پاکستان سے بنگلہ دیش کے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ بنگلہ دیشی وزیر اطلاعات حسن الحق انو نے کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں عبدالقادر ملا کی پھانسی کے خلاف قرارداد منظور کئے جانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک نے ابھی تک اپنی سمت ٹھیک نہیں کی۔
انہوں نے پاکستان سے قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا اور کہا پاکستان 1971ء کے جرائم پر بنگلہ دیش سے معافی مانگے۔ ادھر پاکستان نے بنگلہ دیش میں مظاہرین کی جانب سے پاکستانی پرچم کو نذر آتش کئے جانے اور ہائی کمیشن کو نقصان پہنچائے جانے پر بنگلہ دیش کی حکومت سے شدید احتجاج کیا ہے اور واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی سفارتخانے کے عملے اور ساز و سامان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس میں ارکان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قومی اسمبلی ایک خودمختار ادارہ ہے اور یہ بنگلہ دیشی حکومت یا مظاہرین کے تابع نہیں ہے’ اس لئے اس قرارداد کو واپس لئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا’ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہے اسے الزامات لگانے سے گریز اور دوطرفہ تعلقات مستحکم کرنے چاہئیں بنگلہ دیش میں چند طلبہ نے احتجاج کیا’ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔دوسری جانب بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے کہا ہے کہ پاکستان کے حمایتیوں کیلئے بنگلہ دیش میں کوئی جگہ نہیں۔
عبدالقادر ملا سے متعلق پاکستانی اسمبلی قرارداد کو مسترد اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ اس نے 71ء کی جنگ میں بنگلہ دیش کی جیت کو قبول نہیں کیا۔عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی کی قرار داد پر بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر کی طلبی غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور غیر جمہوری رویہ ہے ۔ بنگلہ دیش کے دفتر خارجہ نے پاکستان پر بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بے معنی الزام کے ذریعے حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ۔ بنیادی اور اہم حقوق کا معاملہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے اور بین الاقوامی قانون انسانی کے مطابق ہر ملک عوامی تنظیم بلکہ افراد کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہو، اس پر تنقید کریں ۔ اس قانون کے مطابق حکومتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی اور قانون کی پامالی کرنے والی ریاستوں پر پابندی عائد کردیں ۔ یہ بین الاقوامی حقوق ہیں ، مقامی نہیں بین الاقوامی معاملہ ہے ۔ حکومت بنگلہ دیش اس سے آگاہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے متعلق مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی پر دنیا کے کئی ممالک نے اس پر پابندیاں عائد کر دی ہیں اور کسی نے بھی اس پر یہ نہیں کہاکہ یہ بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔
Bangladesh Flag
یہ انفرادی معاملات نہیں ہیں ان کا تعلق تمام افراد تمام تنظیموں تمام ریاستوں سے ہے۔ کسی بھی شخص نے یہ نہیں کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ جن لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا اور جن کو سزائیں دی گئی ہیں ان پر لگنے والے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی تنظیموں نے انسانی حقوق کی پامالی کی مذمت کی ہے۔ پاکستان اس غلطی کا مرتکب ہواہے کہ اس نے عرصہ دراز تک مجرمانہ خاموشی کی چادر اوڑھے رکھی اور اگر قومی اسمبلی نے ایک ہلکی سی قرار داد منظور کی ہے تو یہ درست کا اقدام ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر سفارتی کوششوں کو مزید فعال بناناچاہیے ۔ بنگلہ دیش جو اندرونی معاملات کی چھتری کے ذریعے تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے ، اس کو یہ بات یاد کرائی جانے کی ضرورت ہے کہ یہ مقدمات بنگلہ دیش کے عمومی قوانین کے تحت نہیں چلائے جار ہے یہ مقدمات انٹر نیشنل کرائمز ٹریبونل کے ذریعے چلائے جاتے ہیں اور ٹریبونل کا نام بھی انٹرنیشنل ٹریبونل رکھا گیاہے ایسے نام نہاد ٹریبونل کو کسی طرح داخلی یا اندرونی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتاہے ۔
بطور مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس شخص کا ہاتھ روک لیں جو ظلم کا ارتکاب کررہا ہے یا قانون کی پامالی کررہا ہو۔ بنگلہ دیش حکومت انسانیت اور اسلامی تحریک کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں پورا حق حاصل ہے کہ ایسے مجرمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کریں ۔ اس سلسلے میں یہ حقیقت بھی مد نظر رکھناچاہیے کہ پاکستان مکمل طور پر لاتعلق فریق نہیں ۔ ان مقدمات میں جن معاملات کو زیر بحث لایا جارہاہے اس کا اس سے اس دورکا تعلق ہے کہ جب بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا ان مقدمات میں پاکستان کو مورد الزام بھی ٹھہرایا جارہا ہے اور پاکستان کے لوگوں اور پاکستان کی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف اور شفاف کاروائی کا مطالبہ کریں ۔ ہم انصاف کے علمبردار ہیں اور وہاں بنگلہ دیش میں جو کچھ کیا گیاہے وہ سراسر بے انصافی اور سیاسی فوائد کے حصول کے لیے قتل عام ہے ۔ خون بہانے کا یہ سلسلہ ختم ہوناچاہیے اور اگر اس سلسلے میں بھر پور آواز بلند نہ کی گئی تو لاقانونیت پر مبنی یہ مجرمانہ کاروائیاں عبدالقادر شہید پر ختم نہ ہوں گی بلکہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد اپنے ملک کو تباہ اور اپنے عوام کا قتل عام کر رہی ہیں جو جنگی جرائم ہیں ۔ بنگلہ دیشی ریپڈ ایکشن فورس گھروں میں گھس کر بے گناہ بنگلہ دیشیوں کا وحشیانہ قتل کر رہی ہے ۔ بنگلہ دیش کے عوام حسینہ واجد کی سربراہی میں بھارتی غلامی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ پاکستانی حکومت فوری طور پر بنگلہ دیشی سفیر کو طلب کرے اور بنگلہ دیش حکومت کے رویہ پر سخت احتجاج کیا جائے اور بھٹو مجیب کے درمیان طے پانے والے معاہدہ کی خلاف ورزی پر حکومت اپنے جذبات سے آگاہ کرے اور عالمی سطح پر یہ کیس اٹھانے کا اعلان کیا جائے ۔
بنگلہ دیش کے محب وطن عوام کو پاکستان کی محبت کے جرم میں سزائے موت دینا غیر انسانی اور سنگ دلانہ حرکت ہے ۔ بنگلہ دیش میں عوام بھارت سے محبت اور پاکستان سے نفرت کے لیے حسینہ واجد ڈاکٹرائن قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔پاکستان اور بنگلہ دیش اسلامی ملک ہیں اور دونوں ممالک کے عوام میں قرآن وسنت کی بنیاد پر لازوال رشتہ موجود ہے ۔ حسینہ واجد حکومت کے بھارتی محبت میں ظالمانہ اقدامات نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کو بہت قریب کر دیاہے ۔ دونوں ممالک بھارتی بالادستی سے نجات پا کر ہی ترقی اور استحکام حاصل کریں گے ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام آزادی اور اسلام پر کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے ۔ ماضی کی طرح آج بھی نظریہ پاکستان کے دشمن ناکام ہوں گے۔