بنگلہ دیش (اصل میڈیا ڈیسک) تاریخ میں جب ہم اصطلاحات کے ذریعے واقعات کو بیان کرتے ہیں تو ان کے استعمال سے تاریخ کا نقطہ نظر بدل جاتا ہے۔ مثلا بنگلہ دیش کے انیس سو اکتہر کے بحران کے بارے میں پاکستان کے میڈیا میں اسے سقوط ڈھاکا کہا جاتا ہے۔
اس کے استعمال کی وجہ سے بنگلہ دیش کے عوام اور جمہوریت کے لیے ان کی تحریکوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ بنگلہ دیشی دانشور اور مؤرخین اس واقعے کو پاکستان سے لبریشن کہتے ہیں، جس نے انہیں ایک آزاد مملکت بنایا۔ فریڈم اور لبریشن میں فرق ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے، جن ممالک نے یورپی سامراج سے قانونی اور دستوری جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی، اسے فریڈم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ آزادی مسلح جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی ہے تو اسے لبریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ اس لئے بنگلہ دیشی مورخ اپنی تاریخ میں آزادی کو پاکستان سے لبریشن کہتے ہیں۔
عام طور پر مؤرخین جب بنگلہ دیش کی آزادی اور اس کے بحران کا ذکر کرتے ہیں، تو اس میں تین اشخاص کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یحییٰ خان، جو اس وقت پاکستان کے صدر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو، جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین تھے اور شیخ مجیب الرحمان، جو عوامی لیگ کے رہنما تھے۔ جب تاریخ کو شخصیتوں کے پس منظر میں بیان کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ان سیاسی اور معاشی وجوہات کو اہمیت نہیں دی جاتی، جو کہ بحران کا سبب بنے۔
اس لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کو سمجھنے کے لئے تقسیم کے بعد سے، جن حالات کا اس نے سامنا کیا تھا، انہیں سمجھا جائے۔ پاکستان کے قیام کے لیے بنگلہ دیش کی عوام کی جدوجہد قابل ذکر ہے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی وجوہات تھیں، جنہوں نے مغربی پاکستان سے اس کے روابط میں تلخی پیدا کی۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان کی سیاست میں بڑا فرق تھا۔ سابق مشرقی پاکستان کی حکومت نے 1951ء میں اپنے یہاں سے جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا تھا۔ جبکہ مغربی پاکستان کے سیاستدان جاگیرداری کے تحفظ میں سیاست کرتے تھے۔ اس لئے بنگال کی سیاست کا رخ عوامی تھا جبکہ پاکستان میں یہ رخ جاگیردارانہ تھا۔
بنگلہ دیش میں قوم پرستی کی تحریک بنگالی زبان کے مسئلے سے شروع ہوئی، جن میں بنگالیوں کا مطالبہ تھا کہ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ جب طالب علموں نے اس تحریک میں حصہ لیا تو اسے سختی سے کچل دیا گیا اور اس سے کئی طالب علم ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں کی یادگار نے قومی جذبات کو اور زیادہ ابھارا۔ اس کے بعد سے بنگال اور مغربی پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے اور جب 1965 کی جنگ کے بعد بنگالیوں نے خود کو غیر محفوظ پایا تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ انہیں زیادہ سیاسی اور معاشی حقوق دیے جائیں۔
یہ بحران اس وقت اپنی انتہا کو پہنچا، جب 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو بنگال میں اکثریت حاصل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اصولاﹰ اقتدار عوامی لیگ کو ملنا چاہیے تھا لیکن جب مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا تو بنگالیوں نے اپنے حقوق کے لئے زبردست تحریک شروع کی۔ پاکستان کی حکومت نے بجائے اس کے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جاتا اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جاتا، اس تحریک کو کچلنے کے لیے فوجی اقدامات کیے۔
جب بھی فوج کے ذریعے تحریکوں کو کچلا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری اور خونریزی ہوتی ہے۔ یہی سب کچھ بنگال میں ہوا اور بنگالی قوم پرستی کے جذبے نے بنگلہ دیش کو ایک نیا ملک بناکر عوامی طاقت کا اظہار کیا۔ فوجی دخل اندازی کے نتیجے میں بنگالی، جس المیے سے دوچار ہوئے، اس کا اظہار اب تاریخ نویسی میں ہوتا ہے۔
اول ان کی تاریخ نویسی کی بنیاد لسانی قوم پرستی پر ہے۔ دوئم فوج نے وہاں، جو سخت اقدامات اٹھائے تھے، اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے تھے۔ بنگالی دانشوروں اور طالب علموں کو ان اقدامات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس لئے بنگالی مؤرخین نے اپنی آزادی کی تاریخ کو لکھنے کے لیے تاریخی دستاویزات کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ ان دستاویزات میں لوگوں کے قتل اور عورتوں کی عصمت دری کے واقعات کو جمع کیا گیا ہے۔ جب تاریخ میں ماضی کی تلخی آ جاتی ہے تو پرانے رشتے بحال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں اس کے برعکس بنگلہ دیش کے بحران اور اس کی آزادی کو پوری طرح سے نہیں سمجھا گیا اور اس واقعے کو یاد رکھنے اور سبق سیکھنے کی بجائے بھلا دیا گیا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، وہ اسے دہراتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب تک مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ہے اور بعض اوقات یہ کشیدگی بنگالیوں کی تحریک آزادی سے ملتی جلتی نظر آتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا آزادی کے بعد بنگلہ دیش نے ترقی کی ہے یا وہ پہلے سے زیادہ مسائل کا شکار ہے؟ بنگلہ دیش کے بارے میں، جو اعدادوشمار آرہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے بحرانوں پر قابو پا کر آگے کی جانب ترقی کی ہے۔ مثلا گارمنٹ فیکٹریوں میں، جو مال تیار ہوتا ہے، یورپ اور امریکا کی منڈیوں میں اس کی کھپت ہے۔ اندرونی معاملات میں مذہبی انتہا پسندی کی تحریکوں کو بھی قابو میں رکھا گیا ہے۔
اپنی خارجہ پالیسی میں ہمسائیوں سے دوستانہ تعلقات رکھے ہیں، جس کی وجہ سے جنگ کرنے کے امکانات نہیں ہے لہذا فوج کا ادارہ بھی طاقتور نہیں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش میں ترقی ہوئی ہے اور اس کے اسکالرز اپنی تحقیقی کاموں کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ فوجی حکومت کے بعد بنگلہ دیش میں جمہوری حکومت آئی تو اس سے عوام کے سیاسی شعور کا اظہار ہوتا ہے۔
اقتصادی لحاظ سے بنگلہ دیش مستحکم ہے اور اس کے ٹکہ کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہے۔ بنگلہ دیش کی سوسائٹی میں ادب، آرٹ، موسیقی اور رقص کو اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے سوسائٹی میں فنون لطیفہ سے ہم آہنگی ہے، جو عوام کو تشدد سے دور رکھ کر ان میں خوشی اور مسرت کے جذبات کو پیدا کرتی ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں غربت بھی بے انتہا ہے لیکن اس میں کمی آنے کے امکانات ہیں کیونکہ ملک صنعتی طور پر ترقی کر رہا ہے اور جمہوریت کی جڑیں گہری ہو رہی ہیں، جو آنے والے وقتوں میں عوام کو طاقتور بنائیں گی۔