ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلہ دیش میں ملک کی نو منتخب قومی پارلیمان کا اولین اجلاس منعقد ہوا لیکن اپوزیشن تاحال اپنی اس ضد پر قائم ہے کہ ایک ماہ قبل کی جانے والی ’بہت زیادہ دھاندلی‘ کے باعث دوبارہ عام انتخابات کرائے جائیں۔
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق 30 دسمبر کو ہوئے گزشتہ عام الیکشن میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ایسے نتائج حاصل ہو گئے تھے کہ وہ مسلسل تیسری مرتبہ بھی سربراہ حکومت بن جائیں، کیونکہ ان انتخابات میں ان کی جماعت عوامی لیگ کو 96 فیصد رائے دہندگان کی تائید حاصل ہوئی تھی۔
ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) سن 2004 میں قائم کی گئی تھی تاکہ بنگلہ دیش میں فروغ پاتی اسلام پسندی کو قابو میں لایا جا سکے۔ اس فورس نے ابتداء میں چند جہادی عقائد کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا یا پھر گرفتار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس فورس کی شہرت بتدریج داغ دار ہوتی چلی گئی اور یہ خوف کی علامت بن کر رہ گئی۔ اسے موت کا دستہ یا ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
لیکن ٹھیک ایک ماہ قبل کرائے گئے ان انتخابات کے بارے میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی کی قیادت میں قائم اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان انتخابات میں ’بہت زیادہ دھاندلی کر کے ان کے نتائج کو چرا لیا‘ گیا تھا۔
اسی لیے آج ڈھاکا میں جب قومی اسمبلی کی عمارت میں نو منتخب ارکان اسمبلی کا اولین اجلاس منعقد ہوا تو اپوزیشن اتحاد کی طرف سے کہا گیا کہ اس کے ارکان اس پارلیمان کی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے اور اس وقت تک اپنے بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی جاری رکھیں گے، جب تک کہ اگلے چھ ماہ کے اندر اندر ملک میں نئے سرے سے عام انتخابات منعقد نہیں کرائے جاتے۔
گزشتہ برس کے آخری اتوار کے دن ہونے والے اس الیکشن میں بی این پی سمیت اپوزیشن اتحاد کو اتنے برے نتائج حاصل ہوئے تھے کہ نئی پارلیمان میں اب اس کے ارکان کی تعداد بہت ہی کم ہو کر صرف آٹھ رہ گئی ہے۔ اسی لیے ڈھاکا میں جب آج نو منتخب پارلیمان کا اولین اجلاس شروع ہوا، تو سینکڑوں کی تعداد میں اپوزیشن کارکنون نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ اس موقع پر شہر میں پولیس اہلکاروں کی بہت بڑی نفری تعینات کی گئی تھی۔
اس جنوبی ایشیائی ملک میں گزشتہ عام انتخابات کے بارے میں ملکی اپوزیشن اتحاد کے علاوہ بہت سے ناقدین اور کئی بین الاقوامی مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس جمہوری انتخابی عمل سے قبل اور اس کے دوران بھی بہت سی بےقاعدگیاں دیکھنے میں آئی تھیں۔
نئی پارلیمان کا پہلا اجلاس شروع ہونے کے موقع پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار مودود احمد نے اے ایف ہی کو بتایا، ’’ہم نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ حکومت مستعفی ہو جائے اور پارلیمان کو تحلیل کر دیا جائے کیونکہ اسے ملک کے عوام نے منتخب نہیں کیا۔‘‘ مودود احمد نے مزید کہا، ’’ان انتخابات اور ان کے نتائج کو چرا لیا گیا تھا، جس کے لیے بہت زیادہ دھاندلی کی گئی تھی۔‘‘
اسی انتخابی عمل کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دوران بہت سے پرتشدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے تھے، اپوزیشن کے بےشمار کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا اور کئی مقامات پر ووٹروں کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ناقدین کی طرف سے یہ الزامات بھی لگائے گئے تھے کہ متعدد پولنگ اسٹیشنوں پر تو بیلٹ باکس دھاندلی کرتے ہوئے پہلے سے ہی بھر دیے گئے تھے۔
کرپشن کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس انتخابی عمل کی چھان بین کے دوران جن 50 انتخابی حلقوں کی صورت حال اور وہاں ووٹنگ کے عمل کا جائزہ لیا گیا تھا، اس میں سے 47 حلقوں میں انتخابی بےقاعدگیوں کا پتہ چلا تھا۔
اس کے علاوہ یورپی یونین بھی یہ کہہ چکی ہے کہ 30 دسمبر کا انتخابی عمل ’داغدار‘ تھا اور حکمران عوامی لیگ اور اپوزیشن کی بی این پی کو جمہوری انتخابی جنگ میں مساوی امکانات مہیا کیے ہی نہیں گئے تھے۔
انتخابات کے دوران ووٹروں کے ہراساں کیے جانے کی قابل اعتماد رپورٹوں پر امریکا نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ان جملہ الزامات کے برعکس عوامی لیگ کی سربراہ اور مسلسل تیسری بار وزیر اعظم بننے والی شیخ حسینہ کا کہنا ہے کہ قریب ساڑھے سولہ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں کوئی انتخابی دھاندلی نہیں کی گئی تھی اور شروع سے آخر تک انتخابی عمل کی نگرانی ملکی الیکشن کمشین نے کی تھی۔
شیخ حسینہ کی عمر اس وقت 71 برس ہے، وہ اب تک دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر اپنی جو مدت پوری کر چکی ہیں، اس دوران بنگلہ دیش میں اقتصادی ترقی کی شرح تو ریکارڈ حد تک زیادہ رہی ہے لیکن ان کا دور اقتدار کافی متنازعہ سیاسی اور حکومتی فیصلوں کے علاوہ خود پسندانہ طرز سیاست سے بھی عبارت رہا ہے۔