بنگلہ دیش (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار سے تشدد کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش میں بہت ہی برے حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ڈی ڈبلیو کو اس غیر آباد جزیرے تک رسائی حاصل ہوئی، جہاں حکومت ان روہنگیا کو بسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق چٹاگانگ کے ساحل سے تیس کلومیٹر دور یہ جزیرہ واقع ہے۔ اس جزیرے پر تعمیرات جاری ہیں۔ دوسری جانب یہ امر قابل فکر ہے کہ یہاں پر سمندری طوفان بھی آتے رہتے ہیں۔
بیس برس قبل خلیج بنگال کا یہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاہم اب یہاں ایک چھوٹا سا شہر دکھائی دینے لگا ہے اور یہاں پر ایک لاکھ کے قریب روہنگیا مہاجرین کو آباد کیا جا سکتا ہے۔ اسے مقامی افراد ‘تیرتا جزیرہ‘ کہتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے اس غیر آباد جزیرے پر مہاجرین کو بسانے کا منصوبہ 2015ء کے اوائل میں ہی بنا لیا گیا تھا۔ تاہم اگست 2017ء میں میانمار سے سات لاکھ تیس ہزار روہنگیا کی بنگلہ دیش ہجرت کے بعد ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اس منصوبے کو فوری طور پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
میانمار میں چند حفاظتی چوکیوں پر حملوں کے بعد روہنگیا اقلیت کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی گئی تھی۔ ان حملوں کے پیچھے ارکان روہنگیا سلوویشن آرمی نامی ایک شدت پسند گروپ کا ہاتھ تھا۔ اس کے جواب میں میانمار کی فوج نے روہنگیا برادری کے علاقوں پر بمباری کی اور گاؤں نذر آتش کر دیے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ نے اسے ‘مثالی نسلی تطہیر‘ قرار دیا ہے۔