میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) پناہ کے متلاشی سینکڑوں روہنگیا مسلمان ملائیشیا پہنچنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد تقریبا دو ماہ سے سنمدر میں پھنسے تھے جس میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں۔
پناہ کے متلاشی سینکڑوں روہنگیا مسلمان ملائیشیا پہنچنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد تقریبا دو ماہ سے سنمدر میں پھنسے تھے جس میں بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں۔
یہ تمام روہنگیا پناہ گزین ملائیشیا پہنچنا چاہتے تھے لیکن چونکہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ملائیشیا نے ساحلی علاقوں میں گشت و نگرانی بڑھا دی ہے، اس لیے یہ اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے اور کافی دنوں سے سمندر میں ہی بھٹک رہے تھے۔
پناہ گزینوں سے بھری اس کشتی میں بیشتر خواتین اور بچے سوار تھے۔ بنگلہ دیش کے ساحلی ضلع کوکس بازار کے بہار چھارا گھاٹ پر پہنچتے ہی حکام نے کشتی میں سوار سبھی افراد کو حراست میں لے لیا۔ بنگلہ دیش میں کوسٹ گارڈ کے ایک ترجمان لیفٹنٹ جنرل شاہ ضیا رحمان کا کہنا تھا، ”ہم نے ماہی گیری کے استعمال میں آنے والے ایک بڑے ٹرالر سے کم از کم 382 روہنگیاؤں کو بچا لیا ہے اور ٹیکناف کے ساحل پر انہیں پہنچا دیا گیا ہے۔ وہ سب بھوک سے مر رہے تھے۔ سطح سمندر پر وہ گزشتہ 58 دنوں سے تیر رہے تھے اور گزشتہ ایک ہفتے سے وہ ہمارے علاقے کے پانیوں میں آگے بڑھ رہے تھے۔”
پناہ کے متلاشی ان روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار ابتاتے ہوئے شاہ ضیا رحمان نے بتایا کہ جن افراد کو بچا یا گیا ہے ان کے مطابق، ”پر ہجوم کشتی میں سوار 32 روہنگیا سفر کے دوران چل بسے جن کی لاشوں کے مجبورا ًسمندر میں پھینک دینا پڑا۔ بعض افراد نے سفر کے دوران کشتی میں سوار مرنے والوں کی تعداد 28 بتائی ہے۔
انہوں نے اس سے متعلق اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، “بنگلہ دیش میں روہنگیاؤں کی جو کشتی آج پہنچی ہے اس میں افراتفری کا منظر ہے۔ ملائیشیا نے کشتی کو اپنے علاقے میں داخل ہونے سے منع کیا اور ایسا تین بار ہونے کے بعد یہ واپس آئی۔ بہت سے پہلے ہی ہلاک ہوچکے اور کچھ کشتی میں مرے پڑے ہیں۔ کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر کئی بنگلہ دیشی ان کی مدد کرنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔”
بنگلہ دیش میں اس وقت تقریبا دس لاکھ روہنگیا مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے جو پڑسی ملک میانمار میں ہونے والے مظالم سے بچنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔
یاد رہے کہ میانمار کے صوبے راکھین میں روہنگیا کے خلاف فوجی کریک ڈاون کے بعد سات لاکھ پچاس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان
میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش کی سرحد پرکیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس میں سے بیشتر کوکس بازار کے کیمپوں میں ناگفتہ بہ حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔
میانمار کی راکھین ریاست میں فوجی کارروائی سن 2017 میں شروع کی گئی تھی، جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتا ہے۔ اب تک تقریباً دس لاکھ روہنگیاؤں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پیدل اور کشتیوں کے ذریعے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا۔ میانمار حکومت کے مطابق فوجی کارروائی روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی تھی تاہم اس دوران فوج پر تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے الزامات بھی عائد کے گئے۔ لیکن میانمار روہنگیا اقلیت کی اجتماعی عصمت دری اور ہلاکتوں جیسے تمام الزامات سے انکار کرتا رہا ہے۔