ڈھاکہ(جیوڈیسک)بنگلہ دیش کی کابینہ نے جنگی جرائم کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دیدی، نئی ترامیم کے تحت 1971 میں مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث اپوزیشن رہنمائوں کی سزا پر عملدرآمد جلد از جلد یقینی بنایا جائے گا۔
بنگلہ دیش کی کابینہ نے جنگی جرائم سے متعلق قانون میں ایسی ترامیم منظور کر لی ہیں جن کے تحت سزا یافتہ افراد کی سزا پر عملدرآمد جلد از جلد یقینی بنایا جا سکے گا۔ فرا نسیسی خبر رساں ادارے نے ڈھاکا سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ نے جنگی جرائم کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔
ان ترامیم کی وجہ سے اب 1971 میں مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث اپوزیشن کے متعدد رہنمائوں پر عائد ایسے الزامات اگر ثابت ہو جاتے ہیں کہ وہ قتل عام اور آبروریزی کے واقعات میں ملوث تھے تو ان کی سزا پر عملدرآمد کو جلد از جلد یقینی بنایا جا سکے گا۔ کابینہ کی طرف سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ سات دنوں سے ہزاروں افراد احتجاجی مظاہروں کے دوران حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگی جرائم کے مرتکب مشتبہ افراد کو فوری طور پر سزا دی جائے۔ بنگلہ دیش کی عدلیہ میں اس وقت دس مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے جاری ہیں۔ ان تمام افراد کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ سقو ط کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے واقعات میں ملوث تھے۔ ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنے والے اپوزیشن جماعتوں کے دو سابق رہنمائوں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔
بنگلہ دیش میں ان تازہ مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ایک عدالت نے جماعت اسلامی کے سابق رہنما عبدالقادر مولا کو جنگی جرائم میں ملوث قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ سزا انتہائی نرم ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ کے سیکرٹری مشرف حسین نے بتایا ہے کہ ان ترامیم کی بدولت اب جنگی جرائم کے سزا یافتہ افراد کی سزائوں پر عملدرآمد بہت جلد ممکن بنایا جا سکے گا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایپلٹ ڈویژن کو سزا کے خلاف دائر کی جانے والی اپیلوں کو نمٹانے کے لیے ساٹھ دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس سے قبل اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا۔