تحریر : شاہ بانو میر اگست کا مہینہ آتے ہی ہر پاکستانی سرشار وطن کی محبت سے چُور حسب توفیق اس کی خوشیوں میں اپنا حصہ ڈالنے کیلیۓ بیتاب دکھائی دیتا ہے٬کل میں گزشتہ فائلیں دیکھ رہی تھی ٬ تو پتہ چلا کہ کتنے ہی سالوں سے 14 اگست کو عوام کے دکھ کی وجہ سے خاموش سوگوار لکھا٬ گزشتہ سال سے جیسے امید روشنی کی کرن کی طرح پاکستان میں نمودار ہوتی دکھائی دی کہ اب منزل قریب ہے تو پُرامید تحریر رقم کی٬شہدائے وطن ملی نغمے میں قوم کو بتا رہے ہیں کہ ماؤں کے شہزادے دشمن کو سرحدوں سے دھکیلتے ہوئےجام شہادت نوش کر گئےاور اس وطن کی ماؤں بہنوں بچوں بوڑھوں کو محفوظ کر گئے ٬منظر بدلتا ہے اور وہی قد و قامت وہی کڑیل جوان وہی جوش و جزبہ وہی ہیبت”” سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی “”آج قومی بھائی بیٹے اپنے دشمنوں سے لڑنے کی بجائے انہیں دھمکیاں دے کر مرعوب کرنے کی بجائے اپنی ہی ہم وطن ہم خیال خواتین سے جھگڑتے ان کا مذاق اڑاتے ان کو دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں٬اس سے بڑھ کر سیاسی انحطاط زوال اور کیا ہو سکتا ہے۔
اپنی آخرت سے بالکل بے پرواہ صرف اپنے اپنے رہنماؤں کو جھوٹ بول کر بچانے والے بد لحاظ جانبدار رویّے کونسا مستحکم نظام وضع کر سکیں گے؟جس وقت شہداء کی قربانیوں کو قائم رکھتے ہوئے وطن کے ہر شہری کو سپاہی بن کر امن کو قائم رکھنا تھا یہ شعور بانٹنے والے ہی”” سیاسی دہشت گردی”” ملک میں پھیلا رہے ہیں٬بے لگام زبانیں جب اللہ کا شکر چھوڑ کر زمینی خُداؤں(نعوز باللہ) کی تعریف میں مشغول ہو جائیں تو اُس خطہ ارض پر کبھی انصاف کی حکمرانی نہیں ہو سکتی ٬قرآن پاک ہمیں انسانوں کے 3 گروہوں سے روشناس کرواتا ہے۔
1 متقین 2 منافقین 3 فاسقین 1 متقین اللہ کے احکامات پر خود کو اس کے سپرد کر کے ہر عمل میں اس کی رضا کے متلاشی ٬ یہی ہیں وہ لوگ جو روز محشرجنت کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوں گے اور ان کی فضیلت یہ ہے کہ یہ جو “”طلب”” کریں گے وہ ان کے سامنے حاضر کیا جائے گا٬ تخت پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے اور انہیں جام پیش کئے جائیں گے اور ہر قسم کا میوہ ٬ بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ٬ دنیا میں اللہ کے خوف سے ہر ممنوعہ چیز سے اجتناب کرنے پر یہ خاص انعام انہیں ملے گا٬ نامہ اعمال میں سب سے زیادہ تباہ کُن لمحے وہ ہیں جومحض دنیاوی مفادات کیلیۓ اللہ کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ذاتی یا گروہی کامیابی کیلیۓ زباں کو بد ترین استعمال کر کے خود کو فاسقین کے گروہ میں انسان شامل کرتا ہے۔
2 منافقین ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں سے ملیں تو ان جیسے ہوجائیں اور جب اپنے ہم مزاج لوگوں میں بیٹھیں تو انہیں کہیں کہ ہم تو اصل میں تمہارے ساتھی ہیں(سیاسی گٹھ جو ڑ) ٬
3 فاسقین یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دینی حد کو تسلیم نہیں کرتے ٬ خود کو برتر سمجھتے ہوئے زبان کا بہیمانہ استعمال جو کسی بھی طرح انہیں کامیاب کروائے بے شک وہ اللہ کی حدود سے ٹکراتی ہو٬ یہ بے خوفی سے کر گزرتے ہیں۔
اللہ کے خوف سے بالکل بے نیاز گھمنڈ اور ذات کے سحر میں مُبتلا لوگ٬ ایک تو احکامات سے انکار یہ منافقین کی طرح خود پرکوئی پردہ نہیں ڈالتے بلکہ اپنے عیبوں گناہوں کو دھڑلے سے مانتے ہیں ٬ ان کے کانوں آنکھوں پر پردے ہیں ٬ جو ان کی بربادی کے اشارے ہیں۔
آج کے سیاستدان جو تہذیب سے دور ٬ بد زبانی ٬ بد تہذیبی ٬ کی علامت بنے ہوئے ہیں ٬ نجانے کیوں مجھے وہ قرآن کے گروہ فاسق لگتے ہیں٬ سیاستدان باہم گتھم گتھا ہو کر ملک کے اداروں کو مفلوج کر کے نجانے کونسے پاکستان کی تشکیل میں مصروف ہیں۔
ٹھنڈے کمروں میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی حصار یوں تنگ کر رہے ہیں کہ حبس زدہ ماحول میں گھٹن عوام کو محسوس ہو رہی ہے٬ مسلم ملک ہو اور مرد کمزور نازک حساس خواتین پر گرجتے برستے دکھائی دیں ٬ ایسی بے حسی کا مظاہرہ پہلی بار دیکھنے میں آ رہی ہے٬ یہ برباد سیاست اور شائد حدِ سیاست ہے لگتا ایسے ہے کہ اب یہ طوفان بد تمیزی بھاری بوٹ آکر کچلیں گے۔
خواتین کو ترقی کے نام پر پہلے باہر گھروں سے باہر نکالا جاتا ہے اور جب کوئی اختلاف ہو جائے تو انہی خواتین پر ناز کرنے والے اور بڑھا چڑھا کر اپنی جماعت میں خواتین کی تعداد گنوانے والے ان کا کیا حشر کرتے ہیں٬ یہ ہم سب کے سامنے ہے٬ دونوں جانب سے افسوس ناک طرزسیاست ملکی ماحول کو گرد آلود فضا میں بدل رہا ہے۔
جھگڑا یا اختلاف برداشت کے ساتھ برداشت کر کے معاملہ کسی تفہیم کی طرف لےکر جانا چاہیے٬ مگر بد نصیبی سے جب سیاست کا مزاج ترتیب ہی جارحیت سے کیا گیا ہو تو آپ کیسے اندرونی اختلافات میں کمی لا سکتے ہیں٬ آج کی سیاست میں ہر طبقہ فکر کے ہیوی ویٹ سیاسی جماعت میں رکھے جاتے ہیں تا کہ وقت پڑنے پر ان سے کام لیا جائے ٬ طاقتور سیاسی جماعتوں کا یہ کھیل پُرانا ہے کہ اب بڑے ناموں سے جعلی کاغذات بنوا کر کسی بھی وقت عام رکن کو ذلیل و خوار کیا جائے ٬ افسوس صد افسوس کیا یہی ہے وہ منزل؟ کمزور عورت کیلیۓ سانس لینا مشکل کر دیا جائے ؟ سیاست کا دونوں جانب سے خواتین کا سہارا لے کر مخالف کو نیچا دکھانا قابل افسوس عمل ہے٬ آج ٹی وی دیکھ کر معاشرہ اسلامی نہیں غیر اسلامی لگتا ہے ٬ پاکستانی عورت اپنے ملک میں ہی بے وقعت لگتی ہے۔
مغربی عورت کی طرح کوئی احترام نہیں رکھتی وجہ یہ کہ وہ ہر میدان میں بظاہر مرد کے ہم پلہ دکھائی دیتی ہے مگر دراصل اس کا استحصال ہر قدم پر کیا جاتا ہے٬ حقیقت میں اسے گھر سے باہر نکال کر اس کا وقار اس کی شائستگی کو چھین کر اسے بے وقعت کیا گیا ہے٬ یہی آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔
سیاست کا بُودا پن مسلسل پستی کی طرف گرتا دکھائی دے رہا ہے٬ لگتا ایسا ہے کہ اب ان سیاستدانوں کو دوبارہ پھر سے سیاست کی طرف واپس لے جانے کیلیۓ چوڑیاں دینی چاہیے”” شائد یہ چوڑیاں دوبارہ ان کا غیور شعور بیدار کر سکیں٬ اقبال کا شاہین وہ مسلمان جن کی ہیبت سے “” چو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا”” کی مثال پھر سے بنیں٬ چوڑیوں کے حقدار اس لئے ٹھہرے کہ وہ نازک صنف کے ساتھ برابری کی سطح پر الجھ رہے ہیں ٬ جبکہ دین انہیں اس کی حفاظت پر معمور کرتا ہے۔
شائد یہ چوڑیاں انہیں جھنجھوڑ کر اصل مقام اور فرائض کیلیۓ راغب کر سکیں٬ ورنہ تو کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا٬ قومی فرائض کی بجائے تیری میری جماعت کی لڑائیاں ایک بار پھر عوام کو سیاسی یتیمی کا دور دکھا رہی ہیں٬ شعور بیداری عوام سے زیادہ ان سیاستدانوں کی ضرورت ہے٬ اندازہ ہے کہ چوڑیاں سیاستدانوں کی سوئی ہوئی حِسں جگانے میں یقینا کارآمد ثابت ہوں گی۔
کہ وہ نادم ہوں گے اور عورتوں سے ہٹ کر مد مقابل کسی مرد سے پنجہ لڑا کر طاقتور حریف کے طور پر ابھر کر قوم کو تحفظ کا احساس واپس دلائیں گے۔ ملکی اور بین القوامی اہم نوعیت کے حساس معاملات میں دوبارہ سے پوری توانائی کے ساتھ حصہ ڈال کر خود کو وہ رہنما ثابت کریں جو عوام کی ملک کی دنیا کی ضرورت ہے۔jazba