گذشتہ چند ماہ سے لوگوں کے بینک کھاتوں میں کروڑوں اور اربوں روپے نکل رہے ہیں اور ہم محوِ حیرت ہیں کہ کیسے درویش لوگ ہیں کہ جن کے کھاتوں میں اتنی رقم ہے اور ان کی مال و دولت سے بے رغبتی کا یہ عالم ہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں ہے۔ انھیں معلوم تب ہوتا ہے جب ایف بی آئی کے اہلکار انھیں بتاتے ہیں۔ اس کے بعد کھاتہ دار کے پاس لاعلمی کا اظہار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ ایک مردہ شخص کے اکائونٹ میں بھی کوئی ڈیڑھ ارب نکل آئے ہیں۔ اب ایف ی آئی اہلکاروں کو سمجھ نہیں رہی کہ اس کھاتے کی تصدیق کے لئے کس کو بھیجیں کیونکہ کوئی بھی افسر اس اکائونٹ کی تصدیق کے لئے مرحوم سے ملنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک مرتبہ مخدوم امین فہیم کے کھاتے میں بھی ایک کروڑ روپے کسی جن نے ڈال دیئے تھے۔ انھیں بھی انکوائری پر معلوم ہوا۔ انھوں نے وہ رقم واپس کر کے جان چھڑوائی۔
اتفاق سے بینکوں کے کھاتے دار ہم بھی ہیں۔ ہم نے قریب قریب سبھی بینکوں میں کھاتے کھولے کیونکہ جہاں جہاں ہم نے نوکری کی، ہر جگہ الگ بینک میں کھاتے کی شرط ہوتی تھی۔ نوکریاں بھی ہم نے کوئی آدھ درجن تبدیل کیں۔ایک مرتبہ ہمارے ادارے نے بینک تبدیل کر لیا۔ یوں اس ادارے میں ہم نے دو بینکوں میں کھاتے بدلے۔ اب ایک سعودی بینک میں بھی کھاتہ چل رہا ہے۔ مگر مجال ہے کہ کبھی ہمارے کھاتے میں کسی نے غلطی سے چند ہزار بھی بھیجے ہوں۔ ہم نے تو ہمیشہ کھاتے سے رقم نکلتے ہی دیکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ روپیہ ہاتھ کا میل ہے۔ افسوس ہمارے ہاتھ اس میل سے کبھی آلودہ نہیں ہوئے۔ ہم نے روپے کو ریالوں سے بھی بدلا مگر ہمارے ہاتھ پھر بھی صاف ستھرے اور ایسی آلودگیوں سے پاک ہی رہے۔ہم منتظر ہیں کہ کوئی سخی آئے اور ہمارے کھاتے کو اپنی رقم سے بھر دے۔ ہمارا رقم استعمال کرنے کاکوئی ارادہ نہیں ہے۔ہم وہ رقم بعد ازاںواپس کر دیں گے( سیاسی وعدہ) بس ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اچانک اتنی رقم اچانک پا کر انسان کی کیا کیفیات ہوتی ہیں ؟ یوں بھی ہماری رقم کے بارے میں رائے یہ ہے کہ رقم چھپر پھاڑ کر ملے اور اتنی ملے کہ چھپر ٹھیک کروانے کے بعد بھی بچ جائے تو ہی مزا ہے۔ محنت کر کے تو کوئی بھی رقم کما سکتا ہے۔ اس میں کیا کمال؟ تاہم ہمارے کھاتے کا ایک فائدہ بھی ہےوہ یہ کہ آج تک کسی نے اسے ہیک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چیل کے گھونسلے میں ماس ہو گا تو ہی کسی کو ملے گا۔
بینکوں کے متعلق کیا کہیں ہم؟ ملک میں رقم ختم ہوتی جا رہی ہے اور قرض کا سوچا جا رہا ہے بلکہ دھڑا دھڑ لیا جا رہا ہے مگربینک ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔اگر کوئی شخص بینک لوٹ لے تو اسے جیل ہو جاتی ہے اور اگر بینک لوگوں کو لوٹ لے تو ملازمین کو بونس مل جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ غریب آدمی قرضہ مانگے تو بینک والے سو سو ثبوت مانگتے ہیں اور امیر یا صاحبِ اختیار شخص مانگے تو ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ قرض خواہ رقم لے کر ان پر احسان کر رہا ہے۔یعنی اگر کوئی بینک سے ایک لاکھ قرض لےاور وہ ادا نہ کرے تو ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں مسئلہ مقروض کوہو گا مگر کوئی شخص ایک ارب یا زائد کا قرض لے اور وہ واپس نہ کرے تو پھر مسئلہ بینک کے لئے بن جاتا ہے۔
بینک والے اپنے ہی گاہکوں سے ایسے بے اعتباری برتتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔گاہک اپنی ہزاروں لاکھوں کی رقم اور قیمتی اشیاء بینک میں دے کربھروسہ کرتے ہیں جبکہ بینک والوں کی بے اعتباری ملاحظہ کیجیے کہ قلم تک باندھ کے رکھتے ہیں۔
ہمیں آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اگر رقم درختوں پر نہیں اگتی تو بینکوں کی شاخیں کیوں ہوتی ہیں؟
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ پیشہ وروں مثلاً انجینئروں، ڈاکٹروں اور بینکاروں میں جمالیاتی حس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور ان لوگوں کو بس اپنے کام کے پیچ و خم سے ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ کسی بینک میں ایک منیجر آئےجنھیں شعر و شاعری سے بہت دلچسپی تھی۔ ایک دن ان کےدماغ میں نجانے کیا آئی کہ انھوں نےاپنی اسسٹنٹ کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ کیا تم علامہ اقبال کو جانتی ہو؟ ان کی اسسٹنٹ نے پوچھا سر وہ کس برانچ میں ہوتے ہیں ؟اس جوابی سوال کو سن کر منیجر صاحب انگشت بدنداں رہ گئے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جمالیاتی حس کو بینک سے باہر ہی چھوڑ آنا ہے۔
ایک مرتبہ ایک نوجوان بینکارنے نیا سوٹ سلوانے کا ارادہ کیا اور علاقے کے بہترین درزی کے پاس گیا اور اپنا ناپ دیا۔ایک ہفتے بعد درزی نے اسے سوٹ سی کر دے دیا۔ وہ سوٹ پہن کر آئینے کے سامنے تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ سوٹ واقعی بہت شاندار تھا۔ اس کے تصورات کے عین مطابق۔ وہ اپنے ہاتھ جیب میں ڈالنے لگا تو معلوم ہوا کہ سوٹ میں جیبیں تو ہیں ہی نہیں۔ اس نے درزی کو فون کیا کہ آپ نے جیبیں کیوں نہیں رکھیں؟ درزی نے پوچھا: آپ نے شایدکہا تھا کہ آپ بینکار ہیں۔ نوجوان نے اقرار کیا تو درزی بولا کہ اس نے کبھی کسی بینکار کو ‘اپنی’ جیبوں میں ہاتھ ڈالے نہیں دیکھا۔
بینکوں کے اپنے ضابطے ہوتے ہیں۔دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے مگر ان پرعمل ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے کئی بار کہا کہ ہم نے مشترکہ کھاتہ کھولنا ہے تو بہت خوشی سے کہا گیا کہ ضرور جناب۔ پھر پوچھا کہ کس کے ساتھ ؟ ہم نے کہا جی جس کی سب سے زیادہ رقم آپ کے بینک میں ہے توانھوں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور ہمارے دل کا خیال کیے بغیر صاف کہہ دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ایک گاہک نے پوچھا: اگر میں اج چیک جمع کرواتا ہوںتو کتنےرو ز میں کلیئر ہو جائے گا؟ بینکر نے جواب دیا کہ سر تین روز لگ جائیں گے۔ گاہک: جناب دونوں بینک آمنے سامنے ہیں پھ ر بھی اتنا وقت لگے گا؟ اس پر بینکر نے مثال دے کر سمجھاتے ہوا کہا کہ سر طریقہ کار تو پوراکرنا ہے۔ سوچیں اگر آپ قبرستان کے سامنے مر جاتے ہیں تو آپ کو گھر لے جایا جائے گا یا وہیں دفنا دیا جائےگا؟ گاہک مثال سن کر ایک لمحے کے لئے تو ہکا بکا رہ گیا ۔ کچھ لمحے تو مثال کو حقیقت ہوتے دیکھا ۔ پھر جب حیاتِ تازہ پا ئی اوراپنے زندہ ہونے کا یقین ہوا تو کہا: لکھ دی لعنت تیری مثال دی۔پورا ہفتہ لگا دو مگر آئندہ ایسی مثال نہ دینا۔