اسلام آباد (جیوڈیسک) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کا سہارا لے کر بینکوں سے قرضے حاصل کرنے والوں کے بارے میں تفصیلات پارلیمان سے چھپائی نہیں جا سکتیں۔
حکومت کی طرف سے ایک تحریری جواب پر جس میں بینکنگ آرڈیننس مجریہ 1962 کے سیکشن 33 اے اور پروٹیکشن آف اکنومک ریفارمز ایکٹ 1992 کے سکیشن نو کا حوالہ دیا گیا تھا چیئرمن سینیٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص، ادارہ اور کوئی صاحب اختیار پارلیمنٹ سے کوئی معلومات چھپا نہیں سکتا۔
ایک تحریری جواب میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیشل بینک آف پاکستان سے قرضے لینے والے اشخاص اور کمپنیوں کے نام کے بارے میں تفصیلات قرضہ داروں کی نجی معلومات ہیں اور ان کو تحفظ حاصل ہے۔
سرکاری خبررساں ایجنسی کے مطابق چیئرمین سینیٹ نے جواب میں اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی شخص، ادارہ، اتھارٹی یا حکومت کسی قانون، قاعدہ یا ضابطے کا سہارا لے کر پارلیمنٹ سے کوئی معلومات چھپا نہیں سکتی۔’
انھوں نے مزید کہا کہ متعلقہ وزارت نے دو مختلف قوانین کی مختلف شقوں کو بلا کسی قانونی جواز کے یکجا کر کے ایوان بالا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ دانستہ طور پر پارلیمان سے معلومات چھپانے کی کوشش ہے جو کہ ایوان کے ارکان کے استحاق کو مجروح کیے جانے کے مترادف ہے۔
وزارتِ قانون کو کہا کہ دس دن کے اندر نیشنل بینک آف پاکستان وزارتِ خزانہ کے ذریعے ایوان کو بتائے گا کہ بینک کے ان اہلکاروں اور ذمہ داروں جنھوں نے یہ گمراہ کن معلومات فراہم کی ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔
چیئرمن سینیٹ میاں رضا ربانی نے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین پارلیمان کو جو مقام دیتا ہے وہ تمام اداروں سے الگ ہے اور آئین کے تحت صدارتی حکم کے ذریعے ہی معلومات کو روکا جا سکتا ہے۔
انھوں نے مذکورہ بالا قوانین کے بارے میں کہا کہ وہ پارلیمان کو کوئی معلومات حاصل کرنے سے روک نہیں سکتے۔