چند سالوں سے ہندوستان میں کالے دھن پر گرفت کسنے کی بات کہی جارہی تھی اور گزشتہ دنوں اس تعلق سے کچھ کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ برخلاف سوال یہ ہے کہ کیا سوئس بینکوں میں رقم جمع کرانے والوں کو اس بات کا قطعی ڈر نہیں ہے کہ حکومت ہند کالا دھن واپس لانے کی کوششیں کر رہی ہے؟یا پھر وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی؟شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بلاخوف و خطر اپنا پیسہ سوئس بینکوں میں نہ صرف جمع کروارہے ہیںبلکہ اسے بڑھابھی رہے ہیں۔ سوئس مرکزی بینکBJJC نے اطلاع دی ہے کہ حالیہ دنوں سوئس بینکوں میں جمع ہندوستانی دولت میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سوئزرلینڈ کے مرکزی بینک نے بتایا ہے کہ وہاں کے بینکوں میں ہندوستانیوں کی دولت 40 فیصد بڑھ کر تقریباً 2.03 ارب سوئس فرینکس یعنی تقریباً 14000 کروڑ روپے ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے غیر ملکی بینکوں میں جمع کالے دھن کو واپس لانے کے لیے اسپیشل ٹاسک فورس بنائی ہے۔ملک کی تمام بڑی جانچ اور خفیہ ایجنسیوں کے صدور کو ملاکر بنی اس ٹاسک فورس کا کام ہے کہ بیرون ملک میں جمع کالے دھن کا پتہ لگائے اور اسے واپس لانے کے طریقے تلاش کرے۔اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے نیز سپریم کورٹ کی سختی کے بعد ہی مرکزی حکومت نے ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔اس کے باوجود یہ سارے اقدامات سوئس بینکوں میں رقم جمع کروانے والوں کو متاثر نہیں کر پا رہے ہیں۔
سابقہ یو پی اے حکومت کے دوران بی جے پی ، این ڈی اے و دیگر سیاسی پارٹیوںاور افراد نے ہندوستانیوں کے سوئس بینکوں میں جمع کالے دھن کے خلاف پرزور احتجاج کیا تھا۔ اس وقت کانگریس پارٹی نے معاملے کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ہندوستان کے کالے دھن کی مالیت کے بارے میں جو مختلف حوالے دیے گئے ہیں وہ محض تصوراتی ہیں ۔دوسری جانب اشوک وی دیسائی اور ببیک دیبرائے جیسے سرکردہ ماہر معاشیات نے بھی کالے دھن کے اعداد شمار کو اپنی دلیلوں اور حقائق سے مسترد کر دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اڈوانی وزیر اعظم بن جائیں تو بھی غیر ممالک سے وہ نام نہاد کالے دھن کا ایک پیسہ بھی نہیں لا سکیں گے۔
ان کا خیال تھا کہ کالے دھن کا معاملہ حقیقی سے زیادہ سیاسی ہے۔برخلاف اس کے اڈوانی کی ٹاسک فورس میں شامل انڈین انسی ٹیوٹ آف مینجمنٹ بنگلور کے پروفیسر آرودیاناتھن کا کہنا تھا کہ گلوبل فینانشل انٹیگریٹی 2006 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2002 سے 2006 تک ہندوستان سے ہر برس 3 تا 27 ارب ڈالر بے ایمانی کی رقم غیر ممالک پہنچی ہے۔اس لحاظ سے یہ رقم پانچ برس میں 136 ارب ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔خیال ہے کہ رقم کا ایک تہائی سوئس بینکوں میں جمع ہے باقی دیگر ٹیکس ہیون میں جمع کی گئی ہیں۔پروفیسر ودیاناتھن فورڈ فائنڈیشن کی ایک دوسری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پانچ برس میں سوا ارب ڈالر سے زیادہ رقم یہاں سے گئی تو پھر ساٹھ برس کی لوٹ تو اس سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ سیاسی معاملہ نہیں ہے یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس پر سیاست کی نہیں اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔اس دوران سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن 2006 رپورٹ کا بار بار حوالہ دیا گیا تھا جس کے مطابق سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کا 1456ارب ڈالر،روسیوں کا 470، انگلینڈ کا 390 ،یوکرین کا 100 ارب اور چین کے شہریوں کا ناجائز 96 ارب ڈالر جمع ہونے کی بات سامنے آئی تھی۔وہیں مارچ 2005 میں تحقیقی ادارے ٹیکس جسٹس نٹورک نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے امیر افراد نے ساڑھے گیارہ ہزار ارب ڈالر غیر ممالک میں جمع کر رکھے ہیں اور ان میں سے بیشتر رقم سوئزر لینڈ اور لگژ مبرگ جیسے ٹیکس ہیون میں جمع ہیں۔
کالے دھن اور صحیح معنوںمیں غیر قانونی دولت کے اضافہ سے نہ صرف ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک بلکہ وہ ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں جو اس پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔گلوبل فنانشل انٹیگریٹی ،واشنگٹن میں قائم ایک گروپ ہے مالی بد عنوانی کو بے نقاب کرتا ہے۔اس گروپ نے 2011 کی اپنی رپورٹ حال ہی میں شائع کی ہے جس کے مطابق 150 ترقی پذیر ملکوں سے نکلنے والاکالا دھن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2011 میں یہ رقم مجموعی طور پر 9.467 کھرب ڈالر تک جا پہنچی ہے جو 2010 کے مقابلے میں13.7فیصد زائد ہے۔خیال ہے کہ یہ رقم رواں صدی کی پہلی دہائی کی بلند ترین رقم ہے۔گروپ کے سربراہ ریمنڈ بیکر کے بقول عالمی بحران نے عالمی معیشیت کو لڑ کھڑا دیا ہے تاہم غیر قانونی زیر زمین معیشیت پھل پھول رہی ہے۔ہر سال ترقی پذیر ملکوں سے پہلے سے زیادہ رقم نکل رہی ہے۔
اس معاملے نے G-20کے رہنمائوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔یہ رہنما اپنے اپنے ملکوں کو 2008-09 کی کساد بازاری کے اثرات سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ ان ملکوں میں امیر اور غریب شہریوں کے مابین فرق بڑھتا جار ہا ہے۔جس پر قابو پانے کے لیے یہ رہنما اپنے ٹیکس چوروں سے نمٹ رہے ہیں اور ان کا رپوریٹ اداروں کی خبر لے رہے ہیں جنہیں کالا دھن سفید کرنے اور جرائم سے حاصل کی جانے والی دولت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ناجائز رقوم کے بہائو کو ٹھیک ٹھیک ناپا نہیں جا سکتا کیونکہ انہیں تحریر نہیں کیا جاتا اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ خفیہ ہوتی ہیں۔تاہم GFIنے اپنے اعداد و شمار میں اس سال یہ جدت پیدا کی ہے کہ ہانگ کانگ کے راستے باز برآمد (Re-exporting)کے علاوہ مختلف اقسام کے تجارتی اعدادو شمار بھی درج کیے ہیں۔GFIکا کہنا ہے کہ ناجائز رقوم اِدھر سے اُدھرکرنے کا سب سے مقبول طریقہ تجارتی اندراج میں ہیرا پھیری کرنا ہے۔جس میں درآمدی اور برآمدی رقوم کی مالیت اصل سے مختلف لکھی جا تی ہے تاکہ ٹیکسوں سے بچا جائے یا رقم کی بھاری منتقلیوں کو چھپایا جائے۔کالا دھن سفید کرنے کا ایک اور مقبول طریقہ’شیل کمپنیاں’ہیں۔
British Government
کیونکہ یہ کمپنیاں اثاثوں کے اصل مالکان کا نام پتہ معلوم نہیں کرتیں،وہ گمنام مالکان کو بھی کاروبار کی اجازت دیتی ہیں۔G-8(بڑی صنعتی اقوام) نے ماہ جون میں متفقہ طور پر کہا ہے کہ گمنام شیل کمپنیاں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہیں۔ برطانوی حکومت بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔عالمی رہنمائوں کے ایک پینل نے اقوام متحدہ سے سفارش کی ہے کہ وہ 2015 سے ‘نئے عالمی ترقیاتی اہداف’مقرر کرتے وقت غربت کے خاتمے کے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے ناجائز رقوم کے بہائو پر قد غن کو بھی اپنا ایک مقصد بنائے۔
کالے دھن پر گرفت کے تعلق سے ہندوستان کی موجودہ حکومت نے اپنے انتخابی منشورپر عمل درآمد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس این بی شاہ کی قیادت میں کالے دھن معاملے کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ جسٹس شاہ نے فون پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کے دوران گرچہ متعدد پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے باوجود انہیں یقین ہے کہ معاملہ کی جلد از جلد تحقیقات مکمل کر لی جائے گی ۔یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جسٹس شاہ اڈیشہ اور گوا میں غیر قانونی خام لوہے کی کانکنی معاملہ کے کمیشن کے صدر نشیں تھے۔
جس کی اندرون دو ماہ میں ہی انہوں نے اپنی پہلی عبوری تحقیقاتی رپورٹ داخل کردی تھی۔لہذا اپنے پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے نہ صرف انہیں بلکہ حکومت ہند کو بھی توقع ہے کہ کالے دھن معاملے میں بھی تحقیقاٹی رپورٹ ایس آئی ٹی کے ادخال میں تاخیر نہیں ہوگی۔گزشتہ دنوں بی جے پی نے الیکشن مہم کے دوران کالے دھن پر بہت زور شور سے بات کی تھی ،شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے جسٹس شاہ کی قیادت میں ٹیم تو تشکیل دے دی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس تعلق سے ان لوگوں پر کس طرح گرفت کرے گی جو موجودہ یا سابقہ دنوں خود ان ہی کی پارٹی یا حکومت کا حصہ رہے ہیں۔اس کے باوجود رپورٹ کامنظر عام پر آنا اور اس پر غیر متعصبانہ عمل درآمدثابت کرے گا کہ حکومت اس معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ لہذا جب تک کہ یہ عمل مکمل نہ ہو جائے حسن ظن ہی رکھا جائے گا۔
بڑھے ہوئے کالے دھن اور غیر قانونی دولت کے اضافے کے پس منظر میں دیکھنا یہ بھی ہے کہ ملک عزیز ہند میں غربت و افلاس کی صورتحال کیا ہے؟آکسفورڈ یونیورسٹی یوکے کی تحقیقات و تخمینہ کے روشنی میں فی الوقت ہندوستان میں 340ملین افراد غربت و افلاس میں مبتلا ہیں جن میں زیادہ تر دیہی علاقوں کے پسماندہ افراد ہیں۔رپورٹ کی روشنی میں افغانستان کے بعدہندوستان دنیا بھر میں غربت و افلاس کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ Multi-Dimensional Poverty Index (MPI) 2014کے مطابق تیار کی گئی ہے۔Multi-Dimensional Poverty Index (MPI)غربت و افلاس کا وہ پیمانہ ہے جہاںصحت ،تعلیم اورمعیار زندگی،ہر تین پہلوئوں سے غربت کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔
قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ ہر تین پہلوئوں سے افلاس زدہملک میں جہاںناخواندگی، غربت ، بے روزگاری اور صحت عامہ جیسے مسائل میں ہر صبح اضافہ ہی ہو تاہو۔ایسے ملک میں کالے دھن میں اضافہ ،اور اس کا بڑھتا ہوا گراف خود شاہد ہے کہ اہل ملک کس قدر مفلسی وبے بسی سے دوچار ہیں۔واقعہ یہ ہے کالادھن،غیر قانونی دولت میں اضافہ،بڑے پیمانہ پر ٹیکس چوری ،یہ تمام کام درمیانہ یانچلے درجے کے شہری انجام نہیں دیتے بلکہ اِن تمام غیر قانونی کاموں میں اکثریت ان سفید پوشوں کی ہے جویا توسابقہ یا موجودہ حکومتوں میں شامل ہیںیا پھر وہ سرکردہ شخصیات جو خود حکومتوں کے تشکیلی عمل میںمعاون و مددگار ثابت ہوئے ہیں۔اس پس منظر میںکیونکر یہ توقع کی جا نی چاہیے کہ کالے دھن میں ملوث اِن سرکردہ حضرات و شخصیات کی لگام کسی جا سکے گی؟جبکہ نہ انہیں دنیا کا خوف ہو اور نہ ہی آخرت کا !
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com