آج جہاں ضدی دہشت گردوں کی روزروزکی دہشت گردی نے قوم کے اوسان خطاکردیئے ہیں، تو وہیں دہشت گردوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں نے مُلک کے ہر فرد کو غمزدہ کر کے یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کہ کیا اَب مُلک اور قوم کی سیکیورٹی کی بھیک حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے بجائے دہشت گردوں سے مانگنی پڑ ے گی..؟اور آج یہی وجہ ہے کہ مُلک کے ہر عمر کے ہر فرد نے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیاہے؟ ایک طرف عوام ہیں کہ وہ حکمرانوں سے خائف ہیں تو دوسری جانب وہ ضدی اور اڑیل دہشت گردہیں جو اپنی ہر دہشت گردی کے بعد اپنا سینہ چوڑا کر کے اِس کی ذمہ داری کچھ یوں قبول کرلیتے ہیں کہ جیسے اِنہوں نے نعوذ باللہ … قرآن و سُنت کے مطابق کام کرکے اپنے لئے تو جنت اور شہید ہونے والوں کے لئے خدانخواستہ کوئی دوسرا ٹھکانہ بنا دیا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت عناصر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے اپنے لئے تو جہنم اور دہشت گردی سے شہید ہونے والوں کے لئے جنت میں درجات بلند کرانے کے باعث بنتے ہیں، مگر آج شائد وہ اپنی انتہا پسندی میں اُس حدکو پہنچ چکے ہیں کہ اِنہیں اپنا ہر غلط فعل بھی درست لگتاہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس طرح وہ دین کی خدمت اور اپنا ٹھکانہ جنت میں بنا رہے ہیں حالانکہ اِن کی ایسی سوچ بہت غلط ہے۔
Security Personnel
19اور 20 جنوری 2014 کو بالترتیب بنوں فوجی چھاؤنی رزمک گیٹ کے قریب سیکیورٹی فورسز کے قافلے میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ سے 23 سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت ہو یا راولپنڈی کے آر۔اے بازار چوک کے قریب ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 17 معصوم افراد کی شہادت اور 24 کے زخمی ہونے جیسے المناک واقعات ہوں اِن سب کی ذمہ داری دہشت گردوں نے قبول کرلی ہے، جبکہ حکومت مُلک میں دند ناتے دہشت گردوں کے سامنے ہاتھ باندھے یوں کھڑی ہے کہ جیسے یہ خود اِن سے اپنی جان کی ا مان مانگ رہی ہے، اور دہشت گرداِس کی درخواست کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی اگلی کارروائی اور زور سے کردیتے ہیں، اور اپنی حکومت اِن کے خلاف کچھ کر نے کی طاقت رکھ کر بھی پھر بغلیں جھانکتی رہ جاتی ہے، اور عوام کے ردِ عمل کے بعد دہشت گردوں سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے اور اِسے تسلی بخش نتائج کے ساتھ کارآمد بنانے جیسے بیانات دے کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
Terrorism
آج اِس قسم کے حکومتی رویئے پر مُلک کا ہر فرد یہ کہئے بغیر نہیں رہ سکتاہے کہ حد کر دی ہے یار حد کر دی ہے…! حکومت نے تو اپنی نااہلی کی وجہ سے دہشت گردوں کی منہ توڑ اور سینہ زور دہشت گردی کے باوجود حکمرانوں نے اپنی چاپلو سانہ پالیسیوں اور مفاہمت پرستانہ رویوں میں حد کر دی ہے…!اِ آج نہی حکمرانوں کی اِسی چاپلوسانہ اور مفاہمت پرستانہ پالیسیوں اور رویوں کی وجہ سے مُلک میں دہشت گرد آزاد ہیں اور وہ جب اور جہاں چاہیں اپنی آزادانہ کی جانے والی دہشت گردی سے لوگوں کو مار کر نکل جاتے ہیں، اور حکومت لکیر پیٹتے رہ جاتی ہے۔
حکمرانوں بس اَب بہت ہو گیا ہے..؟ اَب حکومت کو اپنی ٹال مٹول اور ایبکی مار کے دیکھ کی چاپلوسانہ اور مفادو مفاہمت پرستانہ پالیسزکو خیرباد کہنا ہوگا..؟ اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے تدبر اور فہم و فراست کا قوی مظاہرہ کرنے کے لئے قوت یاشیرین زبانی کا سہارا لے کر ہر صُورت میں ایسا کچھ کرنے یا کرانے کا فیصلہ کرنا ہوگا، جس سے مُلک میں دہشت گرداپنی دہشت گردی ختم کر دیں یا یہ مُلک چھوڑ کر چلے جائیں، یا اگر یہ ایسا کچھ نہیں کرتے ہیں تو پھر دہشت گرد خود کو مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے کارآمدبنائیں اور دنیا کے سامنے اپنا مثبت کردار کچھ اِس انداز سے پیش کریں کہ یہ پاکستانی قوم سمیت ساری دنیا سے دادِ تحسین حاصل کریں۔ اور قومی دھارے میں شامل ہو کر اُسی انداز سے اپنا مثبت کردار ادا کریں جس طرح پاکستان کے دوسرے امن پسند شہری سر زمینِ پاکستان پر اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
اَب موجودہ حالات میں حکومتی ذمہ داران اور سربراہانِ ضدی دہشت گردوں کے کرتا دھرتاؤں کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور دونوں ہی جانب سے اُس لچک اور نرمی کا مظاہرہ بھی لازمی طور پر کرنا ہوگا، جس سے مُلک میں امن و سکون کی فضاء قائم ہو اور مُلک میں ترقی و خوشحالی کی نئی راہیں کھلیں، اگر ابھی ایسانہ کیا گیا تو پھر دونوں جانب کے ذمہ داران کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ اِن کی ضد اور غیر لچکدارانہ رویوں کی وجہ سے نقصان تو دونوں ہی جانب کا ہوگا، اور پھر بعد میں دونوں کے ہاتھ سوائے جانی اور مالی نقصان کے کچھ نہیں آئے گا، اور اَب ایسے میں اِنہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اَب وقت نکل گیاتو اِن کی ضداور اِن کے غیر منصفانہ اور غیر لچکدارانہ رویوں کا فائدہ دوسرے دہشت اُٹھائیں گے اور اِن دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہری یوں ہی لقمہ اجل بنتے رہیں گے، اور کب تک ہماری حکومتی ذمہ داران اور دہشت گردوں کے سربراہان اغیار کی گود میں بیٹھ کر اپنے اپنے نظریات کاتحفظ کرتے ہوئے اغیارکی عیاری اور مکاری سے بھر سازشوں پر عمل پیرارہ کر اِن کی ماروں اور مارجاؤ کی لولی پاپ چوستے رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف اپنے اپنے ہلکے بھاری ہتھیار وں کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مارتے رہیں گے۔ اور دہشت گرد اپنی ہردہشت گردی کے عوض انعامات کے طور پر اغیار سے ڈالرز اور اِنہی اغیار سے اپنی امداد کی بندش کے خُوف سے ہمارے حکمران اپنے ہی لوگوں کو کبھی ڈرون حملوں سے تو کبھی دہشت گردوں کے بم دھماکوں سے اپنے معصوم شہریوں کو مرواتے رہیں گے اور پھر ہمارے حکمران ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور ایبکی مار کے دیکھ کی رٹ لگاتے ہوئے اپنا منہ بند رکھ کر اپناحقِ حکمرانی ادا کرتے رہیں گے۔