لاہور (جیوڈیسک) اردو ادب کو نیا اسلوب دینے اور اکہرے الفاظ کو چہار معنی پہنانے والی معروف ادیبہ بانو قدسیہ آج اپنی 85 ویں سالگرہ منارہی ہیں۔
1928 میں بھارت میں پیدا ہونی والی بانو قدسیہ نے ادب کی ہرصنف میں اپنا لوہا منوایا۔ راجا گدھ کا نام آئے تو ذہن کے نہاں خانوں میں بانو قدسیہ کی شبیہ نہ ابھرے، یہ کیسے ممکن ہے! بانو قدسیہ ہجرت کے وقت لکیر کے اس پارپہنچیں، لاہورمسکن بنا تو پھر یہیں کی ہو رہیں۔
کنیڈ کالج سے گریجوایشن، گورنمنٹ کالج سے ایم اے کیا، اسی دوران 50 کی دہائی کے خوبر و ادیب اورڈھلتی عمر میں تصوف کے رنگ میں رنگ کر پہچانے جانے والے بابا اشفاق احمد سے شادی کی۔
یوں کسان کی بیٹی بانو قدسیہ تحریر سلطان اشفاق احمد کی ملکہ بن گئی۔ کالج کے زمانے میں رسائل اور جرائد کے قرطاس پر تحریروں کے رنگ بھرنے والی بانو قدسیہ قلم کمان سے نکلا تو پھر ادب کی کون سی ایسی بیٹھک بچی جہاں ان کی تحریر نے رنگ نہ جمایا ہو۔
مختصر کہانیاں، افسانہ، ڈرامہ اور ناول سب انکے دسترس میں ہیں۔ آتش ِزیرپا، آدھی بات، امربیل، مردابریشم، پیا نام کا دیا جیسی تصانیف انکی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
لگ بھگ اکتیس تصانیف کی خالق بانو قدسیہ پر بھی آج تصوف کا رنگ غالب ہے، بابا اشفاق احمد کی اہلیہ ہو، قدرت اللہ شہاب، ممتازمفتی اور ابن انشا کی صحبت ملے تو پھر مکاں سے لامکاں کا سفر شروع ہوہی جاتا ہے، اس پیرانہ سالی کے باوجود بانو آپا کے ہاں ہفتہ وار محفل ضرور سجتی ہے جس میں من وتو کے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔