کراچی: جامعہ بنوریہ عالمیہ میں رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمدنعیم نے بنوریہ ویلفیئر کی جانب سے مدارس کے طلبہ اور غرباء میں عید کے تحائف تقسیم کئے، بنوریہ ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے ماہانہ بنیادوں پر طلبہ میں تحائف اور غرباء میں راشن تقسیم کیاجاتاہے جس میں ماہانہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ترجمان جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مطابق گزشتہ روز جامعہ بنوریہ عالمیہ کے رئیس وشیخ الحدیث مفتی محمد نعیم نے مدارس کے طلبہ میں تحائف تقسیم کیے۔
اس موقع پر ان کے ہمراہ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے ناظم تعلیمات وشیخ الحدیث مولانا عبدالحمیدخان غوری ، مولانا عبدالحکیم ، مولانا آفتاب الحق اور بنوریہ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین مولانا فرحان نعیم اور ویلفیئر ٹرسٹ کے نگران مولانا ظفر اقبال سمیت دیگر علماء کرام بھی موجود تھے ، اس موقع پر سائٹ ایریا اور شہر کے مختلف مدارس سے آئے طلبہ نے تحائف حاصل کیے، اس موقع پر مفتی محمدنعیم نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بنوریہ ویلفیئر ٹرسٹ کا مقصد غریب ومساکین کے ساتھ مالی تعاون اور لوگوں کے دیئے گئے صدقات زکوة عطیات کو حقدار تک پہنچانا ہے، غریب ومساکین کو اپنی عید میں اپنے ساتھ شامل کرنا ہی عید کا اصل مقصد ہے، انہوںنے کہاکہ معاشرے میں اس وقت غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے غریب ایک وقت کے کھانے کو ترستے ہیں۔
ایسے میں ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے وہ اپنے غریب پڑوس اور اپنے بھائیوں کی بھرپورمددکرے،انہوںنے کہاکہ کہ قربانی سنت ابراھیمی کے ساتھ سرکار دوجہاں ۖکی سنت اور ایک مکمل عبادت ہے اس کی ادائیگی ہر صاحب نصاب پر اسی طرح واجب ہے جس طرح دوسری واجب عبادات ہیںاور کسی بھی عبادت میں نمودو نمائش اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیںاس لیے قربانی کی عبادت میں اس سے گریز کرنا چاہیے ریا کاری عمل کو برباد کردیتی ہے، انہوں نے کہاکہ عید قربان میں قربانی ہی اللہ کے نزدیک مقبول عمل ہے کوئی صاحب نصاب قربانی کی جگہ غریبوں میں راشن یا امداد کرے تو وہ درست نہیں ہوگا۔
بلکہ قربانی جانور کے ذبح کرنے سے ہی ادا ہوگی۔انہوںنے کہاکہ قربانی اور قربانی کے جانور کو مذاق نہیں بنانا چاہیے تاجروں کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی فروخت میں عوام کی کشش اور زیادہ سے زیادہ کمائی کیلئے ماڈلز ،فنکاروں کے نام رکھنا اسی طرح جانوروں کو بیہودہ ناموں سے پکارا جانا قربانی کے سنت عمل کے ساتھ مذاق ہے اس طرح کی حرکت قابل مذمت اور افسوس ناک ہے ، اس طرح کے مذموم فعل میں ملوث افراد کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور خریداروں کو بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔