پشاور (جیوڈیسک) پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے قمبر خیل قبیلے کی طرف سے سکیورٹی حکام کو یقین دہانی کروائے جانے کے بعد باڑہ آنے اور جانے والی قبائلی خواتین کو جامہ تلاشی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔
ایک عرصے سے جرائم پیشہ عناصر منشیات کی اسمگلنگ کے لیے برقع پوش خواتین سے کام لیتے رہے ہیں جب کہ حالیہ برسوں میں ایسے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں جن میں شدت پسند برقع کے آڑ میں پرتشدد کارروائیاں کرتے رہے۔
تاہم باڑہ کے قمبر خیل قبیلے کا موقف تھا کہ یہ ان کی قبائلی روایات کے منافی ہونے کے علاوہ خواتین کے لیے پریشانی کا باعث بھی ہے اور سکیورٹی حکام کے ساتھ اس قبیلے کے عمائدین نے ایک جرگے میں فیصلہ کیا کہ وہ اس ضمن میں خود ذمہ داری لیں گے۔
اس قبیلے کے ایک اہم رہنما اور سابق قانون ساز حمید اللہ جان آفریدی نے اتوار کو وائس آف امریکہ کو جرگے کے فیصلے کے بارے میں بتایا۔
” قبائل نے خود ذمہ داری لی ہے اور اس امر کو تسلیم کیا کہ اگر اس علاقے کا کوئی بندہ اپنی گھر والی سے یا کسی (دوسری) عورت کے ذریعے کسی قسم کی اسمگلنگ یا ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو قبائل اس کے خلاف بھرپور کارروائی کریں گے اُس کا گھر مسمار کریں گے (اسے) علاقے سے باہر نکالا جائے گا اور اس کے گھرانے پر 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہو گا”۔
جرگے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سکیورٹی حکام کو اگر کسی طرح کی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع ملتی ہے تو وہ تلاشی کی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
خیبر ایجنسی افغان سرحد سے ملحق ہے اور طویل عرصے سے یہاں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں۔ تاہم 2014ء کے اواخر میں پاکستانی فوج نے بھرپور کارروائی کر کے اس علاقے کو شر پسند عناصر سے پاک کر دیا۔
فوجی آپریشن کی وجہ سے خیبر ایجنسی سے لاکھوں افراد کو عارضی طور پر نقل مکانی کرنا پڑی تھی جن کی مرحلہ وار اپنے علاقوں کو واپسی کا سلسلہ گزشتہ سال شروع ہو چکا ہے۔