تحریر: انجینئر افتخار چودھری دس کلو دوائیوں کا کارٹن اٹھا کر میں نے ایک حجام کا کامہ بننے کی ہمت کی ہے۔جب یہ دوائی کسی نادار اور فقیر کو ملے گی تو جہاں شہباز بھٹی کو اجر کا پہاڑ ملے گا تو میرا اللہ مجھے اور میری بہو کو بھی رائی سے نوازے گا اور شاید یہی وزن میری بخشش کا باعث بن جائے۔ایک چودھری کو ایک نائی کا کامہ بننے پر فخر ہے۔
رات مجھے بال بنوانے تھے۔جدہ میں رہوں تو ایک ہی دکان ہے جس پر میں جایا کرتا ہوں شہباز بھٹی جس کا تعلق مریدکے کے نواحی گائوں سے ہے۔میں اس سے مل کر نکلا تو میرے ہاتھ میں دس کلو کے قریب دوائیاں تھیں۔بال بنوانے کے دوران وہ کسی اور گاہک سے مخاطب تھا یہ دوائیاں لے جائیں پاکستان میں کسی غریب کے کام آ جائیں گی۔دوسرا شخص لیت و لعل سے کام لے رہا تھا شہباز اسے کہنے لگا کارٹون میں پیک کر دوں گا میرا عزیز آ کر لے جائے گا اور وزن کے پیسے بھی دے دوں گا۔میں چونک پڑا وہ شخص اس کیء لئے بھی تیار نہ تھا۔میں نے بھٹی سے کہا میں لے جائوں گا۔اس شخص نے اپنی حجام کی دکان پر ہر آنے والے سے کہا گھر میں پڑی فالتو دوائیں مجھے دے دیں میں اسے پاکستان بھیج دوں گا ڈاکٹر اسے مفت تقسیم کر دیں گے۔یہ دوائی کسی بھی غریب کو مل جائے گی چاہے وہ نون لیگی ہو یا جے سالک کی پارٹی کا۔ہم بھی کیا چیز ہیں باتیں آسمانوں کی کرتے ہیں اور اور کام کرتے ہیں جس سے شرمائے یہود۔وہ راضی نہ ہوا میں نے شہباز سے کہا بھائی میں لے جائوں گا اپنی بہو جو کامونکی کے نواحی قصبے میں ڈاکٹر ہے اسے دوں گا وہ اسے مفت بانٹے گی۔میں نے اپنی وائف اور بیٹی سے کہا آپ اسے پاکستان لے جائیں اور شہباز کے نیک کام میں ہاتھ بٹائیں۔میں دوران زلف تراشی اس سے کہا اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا کہنے لگا چودھری صاحب یہاں میرے پاس شہر کے مخیر پاکستانی آتے ہیں وہ جب میرے استرے کی زد میں ہوتے ہیں تو پیار سے ان سے پاکستان کے لئے مانگ لیتا ہوں اور وہ دے دیتے ہیں کئی یتیم بچیوں کی شادی کرا چکا ہوں ایک دیلفئر سوسائٹی بنائی ہوئی ہے۔
بیوائوں کو سلائی مشینیں دیتا ہوں۔شہباز باتیں کئے جا رہا تھا اور میں شرماتا جا رہا تھا اس ساٹھ سالہ طویل اندگی میں میں نے جو فلاحی کام کئے ان کی کوئی حیثیت نظر نہ آئی میں شرمندہ شرمندہ سا دس کلو دوائیاں لئے گھر آ گیا۔میں نے سوچا ہم طبقاطی تقسیم میں ان حجاموں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں گائوں میں یہ ہماری چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے ہم چودھری گجر جاٹ راجپوت اعوان سید اپنے آپ کو بڑا گردانتے ہیں کبھی کسی یتیم کے تن پر کپڑا نہیں پہناتے بیوہ کی آواز کو پیشہ ور بھکاری سمجھ کر دھتکار دیتے ہیں دوائی سے ترستے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں ہمیں اور ہماری عورتوں کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ شادی پر نیا سوٹ ہر فنکشن کے لئے پہننا ہے ہمارے اپنے گھروں میں ہماری اترن پہننے والی بچیاں بچے موجود ہیں مگر ہم اس کی طرف نہیں دیکھتے۔شہباز اہل دل لوگوں سے بات کرتا ہے سعودی عرب میں انشورنس کارڈ کے حامل لوگوں کو ڈاکٹر کلو کے حساب سے مفت دوائیں دیتے ہیں نزلہ اور زکام ہو تو پانچ سات سو ریال کی دوئیاں تھما دی جاتی ہیں اس کا فائدہ شہباز نے اٹھایا ہے وہ دوائیاں اکٹھی کرتا ہے اور ان دوائوں کو پاکستان بھیج دیتا ہے۔اس شہر میں ہزاروں پاکستانی بستے ہیں کئی طرم خان بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں پچھلے دنون پرانے دوست سے ایک تقریب میں ملاوقات ہوئی اس نے بڑے طمطراق سے مجھے بتایا کہ جب میرا بھائی گھر سے نکلتا ہے تو اس کے پاس ان گاڑیوں کا قافلہ ہوتا ہے۔مجھے دلی خوشی ہوئی کہ جب یہ چودھری اس شہر میں آیا تھا تو اس کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی میکانکی کرتے کرتے اس کے پاس بہت کچھ ہو گیا ہے ایک اور چودھری ہے جو میرے ساتھ اپنی خرید و فروخت کی داستانیں سنایا کرتا تھا اس نے جو سلیپر پہن رکھے تھے اس کی قیمت پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زاید تھی۔وہ چودھری پاکستان سے آنے والے بڑے چودھریوں کی دعوت بڑے ہوٹل میں کر کے اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔میں صرف اس کی بات نہیں کرتا میں خود بھی یہی کچھ کرتا رہا ہوں اور اپنے مہمانوں کی طویل فہرست پر فخر کا اظہار بھی کرتا ہوں۔دکھلاوے کی اس لمبی زندگی میں کتنے لوگوں پر ہزاروں ریال صرف کر دیے مگر پاکستان میں اپنے عزیز اور غریب رشتہ داروں کو نظر انداز کیا بساط بھر کیا بھی مگر شہباز کہاں اور افتخار کہاں۔
Allah
مجھے واپس گائوں جانا ہے وہاں میں دیکھتا ہوں ہم اپنے لوہار ترکھان موچی اور نائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔مجھے اپنے ان چودھری دوستوں سے کہنا کے اللہ کرے آپ کی گاڑیاں اور بھی ہوں مگر اللہ آپ کو ہمت دے کہ آپ اپنے دائیں بائیں پھیلے دکھوں کا مداوا کریں۔لوگوں کے کام آئیں کھانے اور دعوتیں اگر اللہ نے آپ کو پیسا دیا ہے تو ضرور کریں مگر معاشرے میں پھیلے دکھوں کے پہاڑ کم کریں۔اللہ پاک آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ آپ نے دنیا سے غربت ختم کیوں نہیں کی البتہ یہ ضرور پوچھ گچھ ہو گی کہ تم نے کتنی کوشش کی۔دس کلو دوائیوں کا کارٹن اٹھا کر میں نے ایک حجام کا کامہ بننے کی ہمت کی ہے۔جب یہ دوائی کسی نادار اور فقیر کو ملے گی تو جہاں شہباز بھٹی کو اجر کا پہاڑ ملے گا تو میرا اللہ مجھے اور میری بہو کو بھی رائی سے نوازے گا اور شاید یہی وزن میری بخشش کا باعث بن جائے۔
شہباز بھٹی کی دکان عزیزیہ محلے میں واقع ہے۔وہ تحریک انصاف کا جیالا ہے عمران خان کا سپاہی ہے۔وہ سپاہی جو سالہا سال سے خدمت خلق کر رہا ہے۔اسے عمران خان سے گلہ ہے کہ وہ جب جدہ آتے ہیں تو یہاں کے سرمایہ داروں کے مہمان بن کر چلے جاتے ہیں۔اس بار بھی وہ خان صاحب سے ملنے کے لئے دو تین ایسے لوگوں کو لے کر گیا تھا جنہوں نے ہزاروں ریال انہیں دینے تھے۔اسے سخت شکوہ ہے کہ انہیں خان صاحب سے نہیں سکااس نے کہا میری تو خیر ہے مگر ان لوگوں کے حوصلے پست ہوئے جو ریال ہاتھوں میں لے کر گئے اور مایوس واپس لوٹے۔اسے اس بات کی بلکل خواہش نہیں کہ وہ خان صاحب کے ساتھ فوٹو بنوائے مگر وہ تحریک انصاف کی مدد کرنا چاہتا تھا۔شہباز بھٹی احسن رشید کی موت پر مغموم ہے۔سینیٹر طارق چودھری کے بھائی میاں خالد کا ممنون ہے جو اس سے رابطے میں رہتے ہیں۔اس کی دکان میں جائیں تو آپ کو ٣٠ اکتوبر کے جلسے کا پوسٹر نظر آئے گا۔جدہ میں اتنا بڑا پوسٹر لوگ گھروں میں نہیں لگاتے وہ سعودیوں کو بھی بتاتا ہے عمران خان کون ہے۔میں نے خان صاحب کو کہا تھا کہ میں جدہ آپ کے ساتھ جاتا ہوں مگر وہ نہیں مانے ان کا خیال تھا کہ سب چیزیں مینیج ہو جائیں گی۔
کارکن مجھے ہر کونے پر روک روک پوچھتے ہیں ۔ہمیں کیوں نہیں ملے۔خان صاحب آپ سعودی عرب میرے ساتھ آئیں شہباز بھٹی کی دکان سے سفر شروع کرتے ہیں۔میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کہ اگر آپ اس قسم کے کارکنوں سے ملے تو ایک شوکت خانم کوئٹہ میں بھی بن جائے گا) اسی روز مجھے فرخ رشید سعودی صحافیوں کے پاس لے گئے عرب صحافیوں سے تحریک انصاف کے کسی بھی ذمہ دار کی پہلی میٹینگ تھی فوزیہ درد مند پاکستانی صحافی ہیں ان کے خاوند ڈاکٹر زمان ہم سے بھی بڑھ کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ہم نے کیا کیا لفظ چنے باتیں کیں لوگ کہاں سے پہنچ گئے حیران کن بات تھی کہ جریدہ عکاظ کے حشام الثقفی کو علم ہی نہیں کہ عمران خان کون ہے تحریک عدالہ کیا ہے؟فرخ رشید اس محاذ کا مجاہد اول ہے میں اس کا مشکور ہوں کہ اس نے مجھے سعودی صحافیوںسے ملوایا وفا حادی کے سوالات امت مسلمہ کا درد اور نوحہ بیان کر رہے تھے۔قارئین میں یہاں ہوں مگر اپنی ذمہ داریوں کو نہیں بھولا آئے روز میڈیا پرسنیلیٹیز سے مل رہا ہوں بغیر تفریق پاکستانیوں سے ملاقاتیں جاری ہیں۔خوشی یہ ہے کہ آفتاب کھوکھر نے عام پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں وہ ہمارے قونصل جنرل ہیں۔
دوستو!شہباز کی آنکھوں میں آنسو تھے نمناک آنکھیں مجھ سے پوچھ رہی تھیں کیا کوہاٹ کے درزی چاچا ہمایوں اور جدہ کے حجام شہباز کی آواز پر اربوں پتی لوگ کا شور حاوی ہو چکا ہے؟شہباز بھٹی سے مجھے صرف یہی کہنا ہے کہ اپنا کام جاری رکھو اللہ آپ کو اجر دے گا۔ اس کا عزم ہے عمران خان کو اللہ کے کرم سے نوٹوںکے بوجھ سے نکالنا ہے انہیں بتانا ہے کہ ٣٠ اکتوبر ٢٠١١ والے لوگ ابھی مرے نہیں۔دس کلو دوائیاں اللہ نے چاہا تو روز قیامت ایک توشہ ثابت ہوں گی۔تحریک انصاف کے ماتھے کا جھومر مریدکے کے شہباز بھٹی جیسے لوگ ہیں۔(جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں مال روڈ پر نابینا عقل کے اندھوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں)(انھے دے ہتھ شیشہ دینا تے قلعی کران کولے نوں مورکھ سمجھے اک برابر رتی ماشے تولے نوں) دس کلو وزن اور سرکاری انھے