کیا بنجر زمین ہر سال ڈوبتی رہے گی؟

Pakistan

Pakistan

تحریر: فاروق اعظم
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ جس کا 73 فیصد حصہ قابلِ کاشت ہے۔ ہماری 55 فیصد آبادی کا ذریعہ روزگار بھی شعبہ زراعت سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی برآمداد کا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہے۔ لیکن گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان میں خریف کی فصل تباہی سے دوچار ہے، بلکہ فصلِ ربیع بھی اس کے اثرات بد سے محفوظ نہیں۔ بھارت نے 1950ء سے اب تک 64 برسوں میں پاکستان پر 23 سیلاب مسلط کیے۔ جن میں مجموعی طور پر پاکستان کے 5 لاکھ 99 ہزار 459 مربع کلو میٹر علاقے پر تیار فصلیں تباہ ہوئیں۔ رواں برس حالیہ سیلاب سے صرف پنجاب کے 5 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر دھان، کپاس اور گنا سمیت دیگر نقد آور و غذائی فصلیں تباہی سے دوچار ہوئی ہیں۔

پاکستان ان دنوں بھارت کی آبی جارحیت کے باعث دوہری مصیبت میں مبتلا ہے۔ جب فصلوں کو پانی درکار ہوتا ہے تو دریائوں پر بھارت کے تعمیر کردہ متنازع ڈیموں سے پانی روک لیا جاتا ہے۔ لیکن برسات کے مہینے میں موسلا دھار بارشیں ہوتے ہی بھارت باقاعدہ منصوبے کے تحت دریائوں میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ کر پاکستان کی فصلوں اور آبادیوں کو ڈبو دیتا ہے۔ پاکستان 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت پہلے ہی 3 مشرقی دریائوں راوی، بیاس اور ستلج کے پانی سے محروم ہوچکا ہے۔ لیکن ظلم در ظلم یہ ہے کہ مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب، جس پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت کے تعمیر کردہ متنازع ڈیموں اور آبی منصوبوں کی وجہ سے مکمل طور پر بھارت کے دسترس میں نظر آتے ہیں۔

دراصل بھارت کے نزدیک سندھ طاس معاہدہ، کاغذ کے ایک بے جان ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دھڑلے سے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلسل خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پاکستان کی حق ملکیت دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم دریا ہے۔ اس کی شروعات تبت کی ایک جھیل مانسرور کے قریب ہوتی ہے۔ یہ دریا مقبوضہ اور آزاد کشمیر سے گزرتا ہوا خیبر پختون میں داخل ہوتا ہے۔ صوبہ خیبر پختون میں اسے اباسین بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دریاؤں کا باپ۔ کے پی کے میں یہ دریا پہاڑوں سے میدانوں میں اترتا ہے اور اس کے بعد پنجاب اور سندھ سے گزرتا ہوا کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کی رو سے دریائے چناب بھی پاکستان کی حق ملکیت ہے۔ اس کی کل لمبائی 960 کلو میٹر ہے۔ یہ دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ یہ جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کے ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو مٹھن کوٹ کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ اسی طرح دریائے جہلم کوہ ہمالیہ میں چشمہ ویری ناگ سے نکل کر سری نگر کی ڈل جھیل سے پانی لیتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔ یہ مغربی پنجاب کے دریاؤں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنجند کے قریب دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں۔

دوسری طرف مشرقی دریائوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہ سالہا سال خشک سالی کا شکار رہتے ہیں۔ بھارت صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لیے ہی ان دریائوں کو استعمال کرتا ہے۔ ہمارے تینوں مغربی دریا کشمیر کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر ہمارے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت باقاعدہ منصوبے کے تحت پاکستان کے مذکورہ ملکیتی دریائوں پر مقبوضہ کشمیر میں جنگی بنیادوں پر متنازع ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ چناب پر بگلیہار اور جہلم پر کشن گنگا جیسے بڑے پراجیکٹ کے علاوہ لداخ میں دریائے سندھ پر دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم تعمیر کیا جارہا ہے۔ جس سے دریائے سندھ کا 45 فیصد پانی روک دیا جائے گا۔ اگر بھارت نے کارگل ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی تو اسلام آباد سمیت پورا پاکستان، بھارت کی آبی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان میں صرف دو ڈیم منگلا اور تربیلا ہی بن سکے ہیں، جبکہ بھارت نے آزادی کے بعد 100 سے زائد ڈیم سمیت سیکڑوں بجلی پیدا کرنیوالے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کرلیے ہیں،اور درجنوں میگا پراجیکٹ تعمیر کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

Flood In Pakistan

Flood In Pakistan

ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ملکی ضروریات بھی سیاست کی نذر کردیے جاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے کالا باغ ڈیم صوبوں کے درمیان باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔ جبکہ بھارت ہمارے اختلافات سے فائدہ اٹھاکر ہمارے ہی دریائوں سے فوائد سمیٹ رہا ہے۔ پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیر سے کسی صورت بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے حالیہ سیلاب کے دوران بھی سیاستدانوں کو سیاسی بیان بازی سے فرصت نہیں ملی۔ متاثرین کی امداد کی بجائے لاحاصل بحث شروع کی گئی کہ سیلاب کا ذمہ دار حکومت یا محکمہ موسمیات میں سے کس کو ٹھہرایا جائے؟ یہ بھلا ہو پاک آرمی کے جوانوں، جماعة الدعوة کے رضاکاروں و دیگر رفاہی تنظیموں کا، جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ صرف جماعة الدعوة کے رضاکاروں نے سیلاب متاثرہ علاقوں سے 23 ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا ہے۔ جبکہ 200 سے زائد میڈیکل کیمپوں میں 70 ہزار سے زائد مریضوں کا علاج معالجہ کرکے لاکھوں روپے مالیت کی مفت ادویات بھی فراہم کی گئی ہے۔ تیار کھانے کی ترسیل، فری ٹرانسپورٹ سروس کی سہولت اور ماہانہ راشن کی تقسیم کا حساب لگایا جائے تو اعداد و شمار لاکھوں تک چلے جاتے ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن پاکستان کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف کا کہنا ہے کہ متاثرین سیلاب کو عیدِ قربان کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں قربانیوں کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔

غور طلب نکتہ یہ ہے کہ بھارت بلا خوف و خطر ہمارے دریائوں کا رخ موڑ کر پاکستان کی زرعی اراضی کو بنجر زمین بنانے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک طرف نئے ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ باعثِ نزاع ہے، تو دوسری طرف بھارتی آبی دہشت گردی پر بھی سرد مہری پائی جاتی ہے۔ اگر معاملہ جوں کا توں رہا تو ایک طرف ہماری زرعی زمینیں پانی کی عدم دستیابی کے باعث فصل اگانے سے انکار کردے گی اور دوسری ہر سال ہم تباہ کن سیلابوں کی سزائیں جھیلتے رہیں گے۔ جس پر مزارع سے لے کر زمیندار تک اور طالب علم سے لے کر تاجر تک، ہر ایک لبوں پر یہ سوال لیے ششدر دکھائی دے گا کہ کیا بنجر زمین ہر سال ڈوبتی رہے گی؟

Farooq Azam

Farooq Azam

تحریر: فاروق اعظم
[email protected]
0315-2246038