شام (جیوڈیسک) مذاکرات کی سپریم کمیٹی کے ترجمان منذر ماخوس کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت جان بوجھ کر کسی بھی ممکنہ سیاسی معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ اس واسطے اس نے قرارداد 2268 (جس میں فوجی کارروائیاں روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا) کی خلاف ورزی کی اور اسی طرح حلب میں چھ ہسپتالوں کو نشانہ بنایا۔
شامی حکومت نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپوزیشن کے ساتھ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ سرکاری نیوز ایجنسی “SANA” کے مطابق شامی وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت پیشگی شرائط اور بیرونی مداخلت کے بغیر بحران کے کسی سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے پُرعزم ہے۔
تاہم شام کے لیے اقوم متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا کی جانب سے تبصرے کے بعد ، شامی بحران کے کسی بھی فریق کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کے ٹائم ٹیبل کا ذکر سامنے نہیں آیا۔ اقوام متحدہ اپنے طور پر امید کررہی ہے کہ مذاکرات کا نیا دور اگست میں جنیوا میں ہو گا۔
شامی اپوزیشن کے ذرائع نے عربی اخبار الشرق الاوسط کو بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاؤروف پر مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے زور دیا ہے۔ ساتھ ہی کیری نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ امریکا اور روس بشار الاسد کے مستقبل کے تعین کے حوالے سے مفاہمت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
الشرق الاوسط نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی امریکی مفاہمت میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ عبوری مرحلہ شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد بشار الاسد کو اس کے اختیارات سے الگ کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ جان کیری نے گزشتہ ہفتے ماسکو میں ہونے والی ملاقات میں روسی صدر اور وزیر خارجہ کو خبردار کیا تھا کہ مذاکرات غیر معین مقصد کے لیے جاری نہیں رہ سکتے۔ کیری نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سابقہ معاہدوں اور جنگ بندیوں کی پاسداری کے لیے بشار الاسد پر شامی دباؤ کی ضرورت ہے۔