تحریر: روشن خٹک بِلا شک و شبہ دنیا میں ہر انسان امن، محبت اور خو شحالی کا آرزو مند رہتا ہے۔نا انصافی، بد امنی، نفرت اور غربت کو کو ئی بھی شخص پسند نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی حکومت تشکیل دی جاتی ہے وہاں سب سے اہم اور اولیّں اہمیّت انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ فراہم کرنے کو دیا جاتاہے۔اس لئے کہ اجتماعی زندگی میں مختلف فکر وخیال کے حامل افراد زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔جس میں نیک،تربّیت یافتہ،مخلص اور وفادار لوگ بھی ملیں گے اور انسانی شکل میں درندے، شیر، چیتے اور انسانی جان لیوا سانپ اور بچھو بھی نظر آئیں گے، معاشرے میں نادار، کمزور،فقیر اور مفلس طبقے بھی ہوتے ہیں اور طاقتور، مالدار طبقے بھی موجود ہو تے ہیں ۔بایں وجہ اگر کسی ملک میں انسانی بنیادی حقوق کے لئے قانون سازی نہیں ہو گی تو وہاں انسان نما درندے کمزور طبقے کو چیر پھاڑ ڈالیں گے۔
1947 میں وطنِ عزیز وجود میں آیا تو ایک متفّقہ آئین بنانے کی سعی کی گئی مگر آپس کی چپقلش متفقہ آئین سازی میں رکاوٹ بنی رہی مگر دیر آید، درست آید، آخر 1973 میں متفقہ طور پر ملک کا مو جودہ آئین بنا،جو شہریوں کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے۔بنیادی حقوق کی تفصیل آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 8سے 28تک درج ہیں ۔آئین کے آرٹیکل 8میں درج ہے کہ مملکت کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہو ، بنیادی حقوق سے متصادم ہر قانون کو کالعدم تصّور کیا جائے گا۔آئین کے اس شق سے نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی اہمیت کا ندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ یہ شق ریاست کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔
جن بنیادی حقوق کی آئین میں گا رنٹی دی گئی ہے ۔ان سے آگہی بھی ہر شہری کا حق ہے۔اگر چہ کالم ہذا میں بوجہ طوالت یہ ممکن تو نہیں کہ آئینِ پاکستان میں دئیے گئے تمام بنیادی حقوق کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے مگر مختصرا آئین کے ان آرٹیکلز کا ذکر کرنا ضروری ہے جس کے تحت پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ شہریوں کے جان و مال اور عزّت کا تحفط حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے ہیہ وجہ ہے کہ ہمارے ملکی دستور کا آرٹیکل 9اس بات کا ضمانت دیتا ہے کہ ماسوائے جہاں قانون اس کا متقاضی ہو، کسی بھی شخص کو اس کے حقِ زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔آئین کا آرٹیکل 10کے تحت ملزم کو بھی ضروری تحفظ دیا گیا ہے۔
کسی بھی شخص کو کسی جرم میں گرفتاری کی صورت میں اسے گرفتاری کے وجوہات سے آگاہ کرنا ضروری ہے،اسے اپنے مرضی کا وکیل کرنے کا اور دفاع کا حق حاصل ہے۔اسی طرح آئین کا آرٹیکل 11اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ غلامی،بیگار کی تمام صورتیں اور انسانوں کی خرید و فروخت کسی بھی شکل میں ممنوع ہے۔چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا پر خطر ملازمت میں نہیں رکھا جا سکتا۔آئین کے آرٹیکل چودہ کے تحت گھر کی خلوت قابلِ حرمت ہو گی۔لہذا کسی قانونی اتھارٹی کے بغیر کسی کے گھر میں بشمول پولیس گھر میں داخل ہو نے کی اجازت نہیں۔آئین کے آرٹیکل 15کے مطابق ہر شہری کو ملک میں نقل و حرکت کرنے اور ملک کے کسی بھی حصے میں آباد ہونے کا حق حاصل ہے۔آرٹیکل 25کے مطابق تمام شہری بِلا لحاظ رنگ و نسل و جنس قانون کی نظر میں برابر ہیں اور مساوی قانونی تحفّظ کے حقدار ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آئین میں درج انسانی بنیادی حقوق کے باوجود جب ہم پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں تو کسی بھی صاحبِ عقل و خرد کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ وطنِ عزیز میں عملی طور پر آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کا قانون سبھی لوگوں پر یکساں لا گو نہیں ہوتا۔حقوق کی غیر منصفانہ تقسیم اس ملک کے صاحبانِ اقتدار کا طرہ امتیاز بنا ہوا ہے۔جس کے سبب اہلِ منصب روز بروز امیر سے امیر تر ہو تے جا رہے ہیںاور عوام فقر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک کا وزیراعظم کرپشن اور ملک سے بیرونِ ملک اپنا سرمایہ منتقل کرنے کے پاداش میں نا اہل قرار دئیے جا چکے ہیں اور احتساب عدالت میں متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔حال ہی میں سینیٹ کے انتخابات میں جو بد ترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ملک دو طبقوں میں بٹ گیا ہے، ایک طبقہ نے ملکی وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے ،ان کے مال و دولت کا کو ئی شمار نہیں جبکہ دوسرا طبقہ دو وقت کی روٹی کی محتاج ہے۔
حالانکہ صرف ہمارا آئین ہی نہیں، ہمارا مذہب بھی انسان کی بنیادی حقوق کا علمبردار ہے۔ میثاقِ مدینہ اور حجتہ الوداع کے مو قع پر رسولِ پاک ۖ کا آخری خطبہ انسانی حقوق کی ترویج ، رواداری،اور برداشت کی شاندار مثال ہیں۔جہاں کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر،کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی،ما سوائے تقویٰ کے۔پاکستان کا قیام بھی ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی کے منشور کے تحت عمل میں لایا گیا۔اگر اس کے با وجود وطنِ عزیز میں عوام کی اکثریت بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو حکومت کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔لہذا اہلِ اقتدار اور با اختیار لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کی خلاف ورزیوں کی روک تھام میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی سعی کریں۔