لاہور (جیوڈیسک) پاکستانی بیٹسمینوں کی ناکامی سے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کا چہرہ بھی ’’مرجھا‘‘ گیا، انھوں نے پلیئرز کی پیشہ ورانہ دیانتداری پر سوالات اٹھا دیے۔
بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کا کہنا ہے کہ کھلاڑی تربیتی کیمپ میں چند منٹ کی جم ٹریننگ اور نیٹ پریکٹس کو ملک کی نمائندگی کیلیے کافی خیال کرتے ہیں، انٹرنیشنل معیار تک پہنچنے کیلیے بس اتنی سی محنت درکار نہیں ہوتی، صرف ٹورز سے قبل تیاری سے بہتر نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
بڑے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلیے ہمہ وقت ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہنا پڑتا ہے، پلیئرز بڑی کرکٹ دیکھتے لیکن سیکھنے کے عمل میں پیچھے ہیں، اسی لیے دباؤ میں ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، ناکامی کا خوف ہونے کی وجہ سے اپنی 100فیصد کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے، ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنے سے بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے، احمد شہزاد اور عمر اکمل نے اپنا ٹیلنٹ عقلمندی سے استعمال نہیں کیا، پروفیشنل اسپورٹس میں شارٹ کٹ نہیں ہوتے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
اسد شفیق تکنیک کے اعتبار سے سب سے بہتر بیٹسمین اور ون ڈے کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں، ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کیلیے انھیں خود اپنی صلاحیتوں پر اعتمادکی ضرورت ہے،سرفراز احمد کو ٹاپ آرڈر میں بھیجنا میرے اختیار میں نہیں۔ تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور نے ویب سائٹ ’’کرک انفو‘‘ کو انٹرویو میں پاکستانی کرکٹرز کے غیر سنجیدہ رویے کی نشاندہی کردی، انھوں نے کہاکہ میرے ٹیسٹ کرکٹ میں تجربات خوشگوار رہے، مصباح الحق کا بطور قائد انفرادی کھیل اور حکمت عملی اچھی جبکہ کارکردگی میں تسلسل رہا لیکن محدود اوورز کی کرکٹ میں میری رہنمائی سمیت بیشتر حربے ناکام رہے، ملک کی نمائندگی کا اعزاز برقرار رکھنے کیلیے بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ذہنی طور پر چیلنجز کیلیے تیاراور پروفیشنل کھلاڑی کے طور پر ہر نئے دن میں سیکھنے کا عمل جاری رکھنا پڑتا ہے، اسی انداز میں ایک ایسا بہتر کرکٹر بنا جا سکتا ہے جو دباؤ میں ملک کیلیے بہترین کارکردگی پیش کرسکے، تربیتی کیمپ میں 20منٹ کی جم ٹریننگ اور 20منٹ کی نیٹ پریکٹس کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے، انٹرنیشنل معیار تک پہنچنے کیلیے اتنی سی محنت کافی نہیں ہوتی، صرف ٹورز سے قبل تیاری سے بہتر نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے، سخت دباؤ میں بڑے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلیے ہمہ وقت ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہنا پڑتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ انٹرنیشنل معیار سے کمتر اور کھلاڑیوں کا غیر سنجیدہ رویہ ہونے کی وجہ سے ہمارے کیمپس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے، بیشترپلیئرز کی فٹنس مثالی نہیں ہے، میری خواہش ہوتی تھی کہ پاکستانی کرکٹرز دیگر ٹاپ پرفارمرز سے سیکھیں کہ وہ کس انداز میں خود کو چیلنجز کیلیے تیار کرتے ہیں، گرین شرٹس یوں تو بڑی کرکٹ دیکھتے لیکن سیکھنے کے عمل میں بہت پیچھے ہیں، اس لیے دباؤ میں بالکل ناکام ہوجاتے ہیں، موجودہ دور کے بہترین بیٹسمین صرف کیمپ ٹریننگ ہی نہیں کرتے بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ضروریات سے آگاہ اور ان کا بطور اسپورٹس مین ایک مخصوص طرز زندگی ہے۔ ایک سوال پرگرانٹ فلاور نے کہا کہ ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنے سے بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چند پلیئرز اپنی صلاحیت سے کمتر کارکردگی کے سوال کا جواب جاننے سے ہی خوفزدہ ہونگے،توقع کی جا سکتی ہے کہ ایبٹ آباد میں تربیتی کیمپ کے دوران کھلاڑی ماہر نفسیات کے سیشن کو مثبت انداز میں لیتے ہوئے ذہنی طور پر متحرک اور زیادہ بہتر انداز میں تیار ہوںگے۔ بیٹنگ کوچ نے کہا کہ پاکستانی بیٹسمین ناکامی کے خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی 100فیصد صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرپاتے، وہ اسٹروکس کھیلنے میں بھی اعتماد کا مظاہرہ نہیں کرتے، مسابقتی کرکٹ میں ناقص کارکردگی پر ڈراپ کیے جانے کی فکرہر بیٹسمین کو ہوتی ہے لیکن اس دباؤ سے ابھر کر بہتر کارکردگی دکھانے والوں کا کیریئر ہی کامیاب اور طویل ہوتا ہے۔
گرانٹ فلاور نے کہا کہ احمد شہزاد اور عمر اکمل نے اپنا ٹیلنٹ عقلمندی سے استعمال نہیں کیا، پروفیشنل اسپورٹس میں شارٹ کٹ نہیں ہوتے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے،دونوں پلیئرزکو اچھی بیٹنگ کیلیے کرکٹ پر 100 فیصد فوکس کرنا ہوگا، انھوں نے کہا کہ یو اے ای میں باؤنسر لگنے سے احمد شہزاد کا اعتماد خراب ہوا،ایسی صورتحال سے نکلنا مشکل ہوتا ہے،پی ایس ایل میں دباؤ کم ہونے کی وجہ سے وہ قدرے بہتر نظر آئے،اوپنر کو شارٹ گیندوں پر مہارت بہتر بناتے ہوئے جلد از جلد انٹرنیشنل کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اسد شفیق تکنیک کے اعتبار سے سب سے بہتر بیٹسمین اور ون ڈے کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں، مگر مستقل جگہ بنانے کیلیے انھیں خود اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کی ضرورت ہے، گرانٹ فلاور نے کہا کہ اظہر علی نے اچھے رویے اور محنت سے خود کو لیگ اسپنر سے اچھا بیٹسمین بنالیا، اسد شفیق بھی ایسا کرتے ہوئے ون ڈے کرکٹ کے بہترین کھلاڑی ثابت ہوسکتے ہیں، سرفراز احمد بہترین کھلاڑی اور کارکردگی میں تسلسل بھی ہے مگر انھیں ٹاپ آرڈر میں بھیجنا میرے اختیار میں نہیں، نہ ہی بیٹنگ آرڈر پر مجھ سے کوئی رائے لی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ گرانٹ فلاور کا کنٹریکٹ 2 ماہ بعد ختم ہوجائے گا۔