تحریر : شاہ بانو میر دوسال پیشتر پاکستان کا ہر دل کچھ ساعتوں کیلئے جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو ـ اے پی ایس پر دہشت گردوں کا حملہ ٹی وی پر خبر نشر ہوتے ہی جن جن کے بچے سکول میں پڑھتے تھے گویا وہیں زندہ ہی زمین میں گڑ گئے ـ ملک میں دہشت گردوں کی پشت پناہی “”را”” کر رہی ہے پھر کیسے ممکن ہے وہ قاتل وہ سفاک بچوں پر رحم کھاتے ـ اور خوف و امید کی اسی کیفیت میں آخر کار یہ خبر گردش میں آگئی کہ ـٴ بچوں کا قتل عام کیا گیا ہے خاص طور سے پوچھا گیا کہ فوج سے کن کا تعلق ہے ـ بچے تو سچ مچ پھول ہوتے ہیں کسی کے بھی ہوں مگر یہ بچے شائد اسی لئے اللہ کے ہاں پسند کر لئے گئے کہ ان کے چہرے فرشتوں کی مانند پاکیزہ اور منفرد تھے ـ سلجھے والدین کی دن رات کی محنتوں کا ثمر یہ قیمتی بچے دسمبر16 کو ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے ـ یہ ایسا تاریخی گھاؤ تھا جو سارے ملک کیلئے قیامت خیز ثابت ہوا جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا ـ کوئی آنکھ 16 دسمبر 2014 کو ایسی نہ تھی جو اشکبار نہ تھی ـ ہر ماں رو رہی تھی ہر باپ غمزدہ تھا۔
میں سوچتی تھی کہ یہ اتنا بڑا غم ہے جسے پاکستانی قوم کبھی نہیں بھلا سکتی تو ان چاند چہرے والوں کے والدین بہن بھائی دوست کیسے انہیں بھول پائیں گے ؟ مگر را نے اس ملک میں اندر ہی اندر غداروں کا ایسا مہین جال بچھایا ہے جو بادی النظر میں دکھائی نہیں دیتا ـ پورا ملک جیسے اس حملے سے بھی زیادہ خوفناک تباہی کیلئے آئے روز لرزتا ہم دیکھ رہے ہیں ـ کبھی نہیں بھولیں گے یہ سوچ اپنی جگہ مگر ان کی شہادتوں کے بعد دیگر دہشت گردی کے واقعات نے اتنا وقت نہیں دیا کہ لوگ ان بچوں کی یاد میں وہ حق ادا کر سکتے جو یہ حق رکھتے تھے۔
دسمبر 16 دانستہ طور پتے چنا گیا کہ اس سے پہلے کا چرکا یاد دلایا جا سکے۔ آج 2 سال ہونے کو آئے کئی اہم دہشت گرد جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا ان کو جہنم واصل کیا جا چکا ہے ـ مگر وہ گھرانے جن کے چشم و چراغ صبح ہنستے مسکراتے سکول گئے تھے اور واپسی پے ان کی ناقابل شناخت لاشیں ملیں وہ گھر اور ان کے والدین تو آج بھی سکتے کی کیفیت میں ہیں۔
Army Public School Martyr
پیارے بچوں کے ہنستے مسکراتے چہرے ان کی نگاہوں کا مرکز ہیں اور وہ چونک چونک اٹھتے ہیں جب جب وہ گہری سوچوں میں انہیں ویسے ہی اپنے قریب پاتے ہیں ـ ان کا غم کم ہوگا یا نہیں ؟ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ اپنے اس غم کو کس طرح کم کریں وہ تو جانے والوں کا قصور بھی نہیں جانتے؟ اس ملک کیلئے جان دینے والے جانبازوں سے دشمنوں نے ایسی قربانی لے لی کہ جو سوچتے ہی آج بھی تن بدن میں آگ کے ساتھ ساتھ ذہن زہر آلود ہوجاتا ہے ـ پاکستان کبھی آپکو نہیں بھول سکتا کیونکہ آپ ایسی قوم سے ہیں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا تھا اسی لئے تو بڑا دشمن بنا پھرتا تھا جو بچوں سے لڑتا تھا۔
آپ سے وعدہ ہے پیارے بچو خون کے آخری قطرے تک آپ کے دشمنوں کا صفایا کرنے تک پاک فوج ان دہشت گردوں سے لڑتی رہے گی ـ آپ کی قربانی نے اس ملک کو وحدت کی لڑی میں پِرو دیا ـ پورا ملک دشمن کے عزائم کے خلاف یکجا ہو کر ان کو ختم کرنے کا مصمم تہیہ کئے ہوئے ہے۔
پاکستان میں امن و سلامتی کی فضا قدرے بہتر ہے مگر بارود کی ترسیل ختم ہونے کے بعد اب کمزور دشمن کاروباری اہداف کو اپنے حسد کی آگ جلا کر پاکستان کو گرانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے ـ مگر یہاں بھی اس کو منہ کی کھانی پڑے گی ـ پیارے معصوم شہیدو ہم سب آپکو کبھی نہیں بھولے کیونکہ آپ کی شھادتوں نے پاکستان کے””71 کے سقوط”” کو””مکمل سکوت”” میں بدل دیا ہے۔